رسائی کے لنکس

اسلامی دنیا صدراوباما کی جانب سے دوستی کا ہاتھ بڑھانے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے: فرح پنڈت


اسلامی دنیا صدراوباما کی جانب سے دوستی کا ہاتھ بڑھانے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے: فرح پنڈت
اسلامی دنیا صدراوباما کی جانب سے دوستی کا ہاتھ بڑھانے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے: فرح پنڈت

امریکہ اور مسلم دنیا کے درمیان تعلقات بہتربنانے کی ایک اور کوشش گزشتہ برس امریکی وزیر ِ خارجہ ہلری کلنٹن کی جانب سےمسلم ممالک کے لیے امریکہ کی خصوصی سفیر کے طورپرمسلمان خاتون فرح پنڈت کی تعیناتی بھی تھی۔ گذشتہ دنوں یہاں ایک تھنک ٹینک سے اپنے خطاب میں فرح پنڈت نے اپنے ان تجربات کا ذکر کیا جوانہیں اسلامی دنیا کے حوالے سے پیش آئے۔

گذشتہ برس مصر میں چار جون کو مسلم امہ سے صدر اوباما کا خطاب مسلمانوں کے لیے امریکہ کے ساتھ تعلقات کی تجدید کی نوید کے ساتھ ساتھ اس امید کا باعث بھی بنا کہ11 ستمبر کے بعد سے مسلم امہ اور امریکہ کے درمیان پائے جانے والے اختلافات اور تلخی میں کمی دیکھنے کو ملے گی۔

انہوں نے کہاتھا کہ میں آپکی اور مصر کے لوگوں کی مہمان نوازی کے لیے ممنون ہوں اور آپ لوگوں تک امریکی عوام کا جذبہ ِ خیر سگالی پہنچانے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے مسلمانوں پر سلامتی بھیجنا چاہتا ہوں۔ السلام علیکم۔

امریکی وزیر ِ خارجہ ہلری کلنٹن کی جانب سے اسی سوچ کو آگے بڑھانے کی ایک کاوش فرح پنڈت کی بطور مسلم امہ کے لیے خصوصی امریکی سفیر کے تعیناتی تھی۔

گذشتہ دنوں واشنگٹن ڈی سی کے ایک تھنک ٹینک ایٹلانٹک کونسل سے اپنے خطاب میں فرح پنڈت نے مسلم امہ اور امریکہ کے درمیان تعلقات کی بہتری کو موجودہ حکومت کی بنیادی ترجیح قرار دیا۔

فرح پنڈت کا کہنا تھا کہ 11 ستمبرکے بعد سے اسلام کے ساتھ وابستہ دہشت گردی کے تصور کو غلط ثابت کرنے کے لیے مسلمان ممالک کی کوششوں کے ساتھ ساتھ امریکی حکومت بھی کھلے دل کے ساتھ مسلم امہ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں اسلامی دنیا میں جہاں بھی گئی خواہ وہ جکارتا ہو یا انڈونیشیا، الماتی ہو یا پھر کوئی اور شہر، میں نے ہر جگہ نوجوانوں کو متحرک دیکھا۔ وہ اپنا مستقبل بنانا چاہتے ہیں اپنے لیے اور اپنی قوم کے لیے۔ وہ اسلام کی اصل پہچان کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں ۔ کچھ اس طرح جس کا تعلق دہشت گردی سے نہ ہو۔ وہ دنیا کو اسلام کا نیا چہرہ دکھانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ان کے پاس رابطوں کے جدید ترین ذرائع موجود ہیں جیسا کہ انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس۔ وہ دنیا کا حصہ بننا چاہتے ہیں اور یقینا نوجوانوں کے لیے کرنے کو بہت کچھ موجود ہے۔ ہمیں صرف اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہم انہیں سنیں۔ ان کے ساتھ بیٹھے بغیر ہم ان کے خیالات نہیں جانچ سکتے اور نہ ہی ان کےخیالات سن کر ان کی ترقی کے لیے راہیں ہموار کر سکتے ہیں۔ مگرامریکی حکومت اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتی ہے اوردنیا بھر میں موجود امریکی سفارت خانے اس سلسلے میں امریکی حکومت کی مدد کر رہے ہیں۔

ایٹلانٹک کونسل میں ساؤتھ ایشین سینٹر کے ڈائریکٹر شجاع نواز اس صورت ِ حال کو خوش آئند قرار دیتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ ایسا پہلی بار ہوا کہ پچھلے دو برسوں میں کہ امریکن حکومت یہ کوشش کر رہی ہے کہ امریکہ اور مسلمان ممالک کے درمیان کوئی ایسی مفاہمت ہو ،کوئی ایسی بات چیت شروع ہو ،جو بامقصد ہو ۔ یہ نہیں کہ امریکہ کیا چاہتا ہے اور وہ مسلمان ممالک سے کیا کروانا چاہتا ہے بلکہ یہ کہ مسلمان ممالک کیا چاہتے ہیں اور ان کی حکومتیں نہیں بلکہ ان کے عوام کیا چاہتے ہیں۔ یہ خواہش ہے صدر اوباما کی اور ان کے مختلف مشیر وں کی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر اوباما نے مصر میں اپنے خطاب کے دوران دوستی کا جو ہاتھ بڑھایاتھا ، اس کا مسلم امہ نےگرم جوشی سے خیرمقدم کیا ہے۔ مگر اصل سوال ہے امریکہ اور مسلم امہ کے درمیان موجود تلخی کی برف پگھلنے کا۔

مسلم امہ کے لیے خصوصی امریکی سفیر فرح پنڈت چاہتی ہیں کہ امریکی حکومت مسلم ممالک اور امریکہ کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی جوکوششیں کررہی ہے ، اس سلسلے میں مسلم امہ کے نوجوان بھی اپنے حصے کی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے آگے آئیں۔

XS
SM
MD
LG