رسائی کے لنکس

ڈرون پالیسی، امریکی قانون سازوں کےخدشات


امریکی ایوان ِ نمائندگان میں عدالتی امور پر قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں قانون سازوں نے ڈرون حملوں کے بارے میں صدر اوباما کے اختیارات پر سوال اٹھایا

امریکی ایوان ِ نمائندگان میں قائمہ کمیٹی برائے عدالتی امور میں شامل ارکان نے بدھ کے روز امریکی شہریوں سے متعلق اوباما انتظامیہ کی ڈرون پالیسی پر اعتراض اٹھایا۔ کمیٹی میں ریپبلکنز اور ڈیموکریٹس دونوں ہی جماعتوں کے قانون ساز شامل ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ صدر اوباما کے پاس ان ڈرون حملوں کی بظاہر کوئی ٹھوس قانونی توجیہہ موجود نہیں۔

وائیٹ ہاؤس کے ترجمان اور صدر اوباما کے مشیر جان برینن جنہیں سی آئے اے کے نئے سربراہ کے طور پر نامزد کیا گیا ہے، ماضی میں ڈرون حملوں کے حوالے سے عوام کے سامنے امریکی توجیہہ پیش کرتے رہے ہیں۔

عدالتی کمیٹی کے اجلاس میں قانون سازوں نے ڈرون حملوں کے بارے میں صدر اوباما کے اختیارات پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ انہیں یہ بتایا جائے کہ آیا صدر اوباما کے اختیارات انہیں یہ اجازت دیتے ہیں کہ وہ کسی دوسری سرزمین پر ڈرون حملوں کے ذریعے کسی بھی امریکی کو بغیر کسی قانونی کارروائی کے مارنے کا حکم صادر کر سکتے ہیں؟

2011ء میں یمن میں ایک ڈرون حملے میں امریکہ میں پیدا ہونے والے، انور اولاکی اور ان کے نوجوان بیٹے کو مارا گیا تھا۔ انور اولاکی کا بیٹا بھی امریکی شہری تھا۔ انور اولاکی پر القاعدہ کا رہنما ہونے کا الزام تھا۔

کمیٹی کے سربراہ باب گڈلیٹ کے مطابق، ’وہی صدر جو دوسرے ممالک میں دہشت گردوں کے حراست کی مخالفت کرتا ہے، جو دوسرے ممالک کے دہشت گردوں پر تفتیش کے جدید طریقوں کی مخالفت کرتا ہے، جو دوسرے ممالک کے دہشت گردوں پر نیویارک میں مقدمے چلاتا ہے، ذاتی حیثیت میں کیسے امریکیوں کے قتل کی اجازت دے سکتا ہے؟‘

اس بارے میں بھی سوالات اٹھائےجا رہے ہیں آیا امریکیوں پر ڈرون حملوں کی اجازت کا سلسلہ خود امریکی سرزمین پر بھی شروع کردیا جائے گا؟

لیکن گذشتہ ماہ کے آغاز میں صدر اوباما نے ایسے کسی بھی تاثر کی نفی کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی سرزمین پر کسی امریکی کو مارنے کے لیے کبھی بھی ڈرون حملوں کا استعمال نہیں کیا گیا۔ صدر اوباما کے الفاظ، ’امریکہ سے باہر اصول مختلف ہیں اور امریکہ کے اندر الگ اصول ہیں۔‘

ریاست مشی گن سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹ جان کونیرز امریکہ سے باہر ان شہریوں کی ہلاکت کے بارے میں سوال اٹھا رہے ہیں جنہیں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کے اندیشے میں ڈرون حملوں میں مارا گیا اور جن کی شناخت کے بارے میں کبھی کوئی بات نہیں کی گئی۔ ان کے الفاظ، ’آج تک اوباما انتظامیہ نے اس بارے میں کوئی بات نہیں کی کہ ایسا کوئی سلسلہ ہے بھی کہ نہیں۔ کُجا کہ اس کمیٹی کو وہ مطلوبہ معلومات فراہم کی جائیں جس سے ڈرون حملوں کے قانونی جواز پر بات کی جا سکے۔‘

چند قانون ساز یہ بھی سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر روس یا چین نے بھی ایسے ہی ڈرون حملوں کا آغاز کیا تو اُس پر امریکہ کا رد ِ عمل کیا ہوگا؟

جان بیلنگر صدر بش کے دور میں وائیٹ ہاؤس اور امریکی محکمہ ِ خارجہ کے قانونی مشیر رہ چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ، ’دنیا بھر میں کوئی ایک بھی ملک ایسا نہیں ہے جس نے اعلان کیا ہو کہ وہ اس پالیسی پر ہمارے ساتھ ہے۔‘
XS
SM
MD
LG