رسائی کے لنکس

قذافی پر دباؤ میں اضافے اور شامی اپوزیشن کی حوصلہ افزائی کا مطالبہ


قذافی پر دباؤ میں اضافے اور شامی اپوزیشن کی حوصلہ افزائی کا مطالبہ
قذافی پر دباؤ میں اضافے اور شامی اپوزیشن کی حوصلہ افزائی کا مطالبہ

امریکی کانگریس کےکچھ سرکردہ قانون سازوں نےمطالبہ کیا ہےکہ لیبیائی لیڈرمعمر قذافی کے دست بردار ہونے کے لیےاُن پر دباؤ میں اضافہ کیا جائے۔

اتوار کو ریپبلیکن سینیٹر لِنڈسی گراہم نے امریکی ٹیلی ویژن چینل سی این این کے’اسٹیٹ آف دِی یونین‘ پروگرام میں کہا کہ لیبیا میں تنازع کو ختم کرنےکا ایک ہی طریقہ ہےاور وہ یہ کہ قذافی کے حامیوں پر بمباری کرکے، ’سانپ کا سر کچل دیا جائے‘۔
ریپبلیکن سینیٹر جان مک کین اور آزاد سینیٹر جو لبرمین بھی اُسی پرگرام میں شریک ہوئے۔ تینوں قانون ساز سینیٹ کی مسلح افواج کی کمیٹی کے رُکن ہیں۔

مک کین کا، جنھوں نے گذشتہ ہفتے لیبیا کے شہر، بِن غازی کا دورہ کیا، کہنا تھا کہ امریکہ کو لیبیا سے متعلق نیٹو اتحاد کی سربراہی کا کردار ادا کرنا چاہیئے۔ لبیرمین نے اِس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی اتحاد ہاتھ کھینچ لیتا ہےتو اِس سے مسٹر قذافی کو یہ پیغام جاتا ہے کہ وہ بچ نکلیں گے۔

اتوار کو دونوں جماعتوں سےتعلق رکھنے والے دیگر قانون سازوں نے شام میں گفتگو کرتے ہوئے اِس بات پر زور دیا کہ شام میں ہلچل مچانےوالی اپوزیشن کی مزیدحمایت کی ضرور ت ہے۔

ریپبلیکن سینیٹر مارک کِرک نے سی بی ایس کے ’فیس دِی نیشن‘ پروگرام میں کہا کہ شامی آمریت کو کمزور کرنے کےلیے امریکہ کو اپنے سفارتی وزن کا استعمال کرنا پڑے گا۔

اُنھوں نے کہا کہ اُن کے خیال میں آہستہ آہستہ شام کے بشار الاسد کی آمریت کا خاتمہ قریب آتا جا رہا ہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر رچرڈ بلومینتھل کا کہنا تھا کہ شام میں حکومت مخالف تحریک کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ اور کِرک اِس بات پرمتفق تھےکہ امریکہ کوملک میں فوجیں نہیں بھیجنی چاہئیں۔

XS
SM
MD
LG