امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگان) نے اعلان کیا ہے کہ وہ یوکرین کو 275 ملین ڈالر کی اضافی فوجی امداد فراہم کرے گا۔
محکمہ دفاع کی ڈپٹی پریس سیکریٹری سبرینا سنگھ نے کہا کہ نئے پیکج میں "ہمارس" نام کا گولہ بارود، سینکڑوں 155 ملی میٹر پریزیشن گائیڈڈ آرٹلری راؤنڈز ، ریموٹ اینٹی آرمر مائن سسٹم، بکتر بند گاڑیاں اور چھوٹے ہتھیار شامل ہوں گے۔
یوکرین کے حکام کے مطابق فوجیوں کو میدان جنگ میں گولہ بارود کی کمی کا سامنا ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق یوکرین کے ایک فوجی نے ایک رپورٹر کو بتایا کہ ہماری جانب سے فائر کیے گئے ایک گولے کے جواب میں روس کی جانب سے پانچ گولے داغے جا رہے ہیں۔
یوکرین کی مسلح افواج کے جنرل سٹاف نے جمعے کو بتایا کہ روسی افواج نے خارکیف، ڈونیٹسک اور خیرسون کے علاقوں میں 30 بستیوں پر گولہ باری کی تھی۔
لوہانسک کے گورنر نے جمعہ کو کہا کہ یوکرین کےوہاں فوجیوں کا زیادہ تر کنٹرول ہے حالانکہ ایک اہم سڑک جو ملک کے مشرق میں ہے روس کے زیر قبضہ دو اضلاع کو ملاتی ہے۔
رپورٹس کے مطابق یوکرین کی فوج آہستہ آہستہ مشرق کی طرف لوہانسک کے علاقے کی طرف پیش قدمی کر رہی ہیں جس کا مقصد روس کے زیر قبضہ 45 کلومیٹرز جنوب میں واقع سواتوو اور کریمنا قصبوں کو واپس لینا ہے۔
گورنر سرہی گیدائی نے ایک ٹیلی ویژن چینل پر کہا کہ "سواتوو سے کریمنا تک سڑک عملی طور پر یوکرین کی مسلح افواج کے کنٹرول میں ہے۔ ہمارے فوجی روزانہ پیش قدمی کر رہے ہیں۔"
دریں اثنا روس کے وزیر دفاع سرگئی شوئیگو نے جمعے کے روز کہا کہ روس نے یوکرین میں لڑنے کے لیے تیار کیے گئے 300,000 ریزروسٹس کو متحرک کر نے کا عمل مکمل کر لیا ہے، اور یہ کہ پہلے سے بھرتی کیے گئے 82,000 افراد کو محاذ پر بھیج دیا گیا ہے اور مزید 218,000 "جنگی تربیت" حاصل کر رہے ہیں۔
حالیہ مہینوں فوج میں بھرتی کے اس اقدام نے ہزاروں مردوں کو روس سے فرار ہونے پر اکسایا اور ملک میں جنگ مخالف مظاہروں کو ہوا دی۔
جمعے کو اپنے ایرانی ہم منصب حسین امیرعبداللہیان کے ساتھ ایک فون کال کے دوران یوکرین کے وزیر خارجہ دمیترو کولبا نے مطالبہ کیا کہ تہران روس کو ڈرونز بھیجنا بند کرے۔
اطلاعات کے مطابق ان ڈرونز کو روسی افواج یوکرین کے انفرا سٹرکچر یعنی بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں۔ ایران اس الزام کی تردید کرتا ہے۔
ادھر یورپ میں جرمن صدر فرینک والٹر نے اپنے ملک اور یورپ کے لیے "آنے والے مشکل سالوں" سے خبردار کیا۔
"قوم کی حالت" کہلائے جانے والے خطاب میں جرمن صدر نے کہا کہ یوکرین میں جنگ متحد جرمنی میں "سب سے گہرے بحران" کا باعث بنی ہے۔
اس ضمن میں انہوں نے توانائی کی کمی، زندگی کے بڑھتے ہوئے اخراجات اور غربت کی بڑھتی ہوئی شرح کی طرف اشارہ کیا۔