امریکی صدر جو بائیڈن اور نیٹو کے سیکرٹری جنرل سٹولٹن برگ نے بدھ کے روز بخارسٹ نائن، یا B-9 کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی۔ اس گروپ میں بلغاریہ، جمہوریہ چیک، ایسٹونیا، ہنگری، لتھوانیا، لٹویا، پولینڈ، رومانیہ اور سلوواکیہ شامل ہیں۔
نسبتاً اس غیرمعروف گروپنگ کا آغاز 2015 میں رومانیہ کے صدر کلاؤس یوہانس اور پولش صدر آندرے دُودا نے کیا تھا۔ اس کا مقصد بالٹک اور بحیرہ اسود کےدرمیان واقع علاقوں کی سلامتی اور استحکام کو بہتر بنانے کے لیے نیٹو کے نئے اراکین کے درمیان تعاون کو بڑھانا ہے۔
سربراہی اجلاس کے میزبان دُودا نے کہا کہ بدھ کی میٹنگ B-9 سربراہی اجلاس اورنیٹو سربراہی اجلاس سے قبل ممکنہ اقدامات کا تعین کر رہی ہے۔ صدر بائیڈن نے B-9 کی سلامتی کے لیے امریکی عزم کی توثیق کی، جس کے ارکان نے سرد جنگ کے دوران ماسکو کے زیر اثر رہنے کے بعد فوجی اتحاد میں شمولیت اختیار کی تھی اور اب وہ ماسکو کے توسیع پسندانہ عزائم کو تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ ’’آج، جب ہم روس کے حملے کی ایک سال کی برسی کے قریب پہنچ رہے ہیں، تو یہ اور بھی اہم ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہیں‘‘ ۔
انہوں نے کہا،’’آپ ہمارے اجتماعی دفاع کی فرنٹ لائن ہیں اورآپ سے بہتر کون جان سکتاہے کہ یہ کتنا خطرناک تنازعہ ہے۔صرف یوکرین کے لیے نہیں، بلکہ پورے یورپ اور دنیا بھر میں جمہوریتوں کی آزادی کے لیے۔‘‘
صدر بائیڈن کے ریمارکس کی تائید کرتے ہوئے، نیٹو کے سٹولٹن برگ نے کہا کہ پوٹن امن کی راہ پر نہیں چل رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کے برعکس وہ مزید جنگ کی تیاری کر رہے ہیں۔لہذا، ہمیں یوکرین کے لیے اپنی حمایت کو برقرار رکھنا چاہیے اور اسے بڑھانا چاہیے۔ ہمیں یوکرین کے لیے وہی کچھ کرنا چاہیے جو اسے فتح حاصل کرنے کے لیے درکار ہے۔
ہنگری کے وزیر اعظم اوربان اجلاس میں شریک نہیں ہو رہے
ہنگری اور بلغاریہ کو چھوڑ کر، B-9 کے اراکین اب یوکرین کو فوجی امداد دینے اور روس پر دباؤ بڑھانے کے مضبوط حامیوں میں شامل ہیں۔
وزیر اعظم وکٹر اوربان، جنہوں نے ماسکو کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے کا عہد کیا ہے، اجلاس میں شرکت نہیں کر رہے ہیں، لیکن ہنگری کی نمائندگی صدر کیٹلن نووک کر رہے ہیں۔
دریں اثنا، بلغاریہ کے نگران صدر رومن رادیو اپنی حکومت کی جنگ مخالف پوزیشن پر سختی سے قائم ہیں اور مغرب کی جانب سے یوکرین کو ہتھیاروں سے مضبوط بنانے کی کوششوں کی مخالفت کر رہے ہیں۔
یوکرین کے بارے میں کچھ اختلاف کے باوجود امید کی جارہی ہے کہB-9 گروپ کے رہنما 11-12 جولائی کو ولنیئس میں نیٹو سربراہی اجلاس کے لیے توقعا ت کا تعین کر لیں گے۔
پولینڈ سبقت لےرہا ہے
وارسا میں قائم ایک تحقیقی ادارے پولیٹیکا انسائٹ میں سیکیورٹی اور بین الاقوامی امور کے ڈیسک کے سربراہ، ماریک سوئرزینسکی نے کہا کہ یوکرین کی جنگ نے یورپ میں سیاسی طاقت کے توازن کو مزید مشرق کی جانب منتقل کر دیا ہے۔
انہوں نے وی او اے کو بتایا کہ B-9 ممالک کو طویل عرصے سے نیٹو کی سرحد خیال کیا جاتا رہا ہے لیکن’’روسی جارحیت کی وجہ سے، یہ دراصل نیٹو کی کشش ثقل کا مرکز بن گیا ہے۔‘‘
B-9 سربراہی اجلاس بائیڈن کے مشرقی یورپ کے طوفانی دورے کی آخری منزل تھا جس کا آغاز پیر کو بائیڈن کے کیف کے خفیہ دورے اوروارسا کے تاریخی رائل کیسل میں منگل کی تقریر سے ہوا، جہاں انہوں نے یوکرین کو روس کے حملے کو روکنے میں مدد دینےکے لیے نیٹو کی جاری کوششوں کا دفاع کیا اوراس عزم کا اظہار کیا کہ اس میں چاہے جتنا بھی عرصہ لگ جائے ، اتحاد ایسا ہی کرتا رہے گا۔
(پیسٹی وڈاکسوارا، وی او اے نیوز)