امریکی صدرباراک اوباما نے پاکستان میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کے خلاف ڈرون حملے کرنے کی پہلی بار باضابطہ طور پرتصدیق کرتے ہوئےان کا بھرپورانداز میں دفاع کیا ہے۔
پیر کی شب ایک آن لائن ٹاؤن ہال مباحثے میں حصے لیتے ہوئے مسٹر اوباما نے کہا کہ ان کارروائیوں کا ہدف القاعدہ اوراس کے حامی ہیں، اور زیادہ تریہ حملے وفاق کے زیرانتظام پاکستان کے قبائلی علاقوں یعنی فاٹا میں کیے گئے ہیں۔
افغان سرحد سے ملحق قبائلی علاقوں خصوصاً شمالی اورجنوبی وزیرستان میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کے خلاف بغیر ہوا باز کے پرواز کرنے والے جاسوس طیارے یعنی ڈرون سے میزائل حملوں کا سلسلہ 2004 ء میں شروع کیا گیا تھا۔
لیکن امریکہ نے براہ راست کبھی بھی ان کا اعتراف نہیں کیا۔ البتہ اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر امریکی حکام ان کارروائیوں اور ان میں ہونے والے جانی و مالی نقصانات کی تفصیلات ذرائع ابلاغ کو باقاعدگی سے جاری کرتے آئے ہیں۔
صدر اوباما نے کہا کہ امریکہ ’’خواہ مخواہ‘‘ ان کی اجازت نہیں دیتا اور یہ آپریشنز ’’بالکل ٹھیک اور درست حملوں‘‘ کے لیے استعمال کیے جارہے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ ان کا ہدف وہ ’’سرگرم دہشت گرد‘‘ ہیں جن کے ’’ٹھکانوں تک رسائی بہت مشکل ہے‘‘۔
پاکستان نے امریکی صدر کی جانب سے ڈرون حملوں کی غیر متوقع تصدیق کو بظاہرنظرانداز کرتے ہوئے ایک بار پھر انھیں’’ناقابل قبول‘‘ قرار دیا ہے۔
دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے وائس آف امریکہ کو بھیجے گئے ایک مختصر(ایس ایم ایس) بیان میں کہا ہے کہ ’’ہمارا موقف واضح اور اصولوں پر مبنی ہے۔ ڈرون حملےغیر قانونی، غیر سود مند اورناقابل قبول ہیں۔‘‘
پاکستان ظاہراً امریکی ڈرون حملوں کو ملک کی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دے کران کی مذمت کرتا آیا ہے۔ لیکن دفاعی امور کے ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ میزائل حملے زمین پر موجود پاکستانی خفیہ ایجنٹوں کی مدد سے کیے جاتے ہیں۔
وکی لیکس کے توسط سے 2010 ء کے اواخر میں افشا کی گئی خفیہ امریکی سفارتی دستاویزات نے بھی اس امر کی نشاندہی کی تھی کہ کھلے عام ڈرون حملوں کی مذمت کرنے والے پاکستان کے سیاسی وفوجی رہنماؤں نے امریکی حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں غیر سرکاری طور پر ان کارروائیوں کی حمایت کی تھی۔
لیکن گزشتہ سال مختلف واقعات امریکہ اور پاکستان کے سفارتی تعلقات میں غیر معمولی کشیدگی کا باعث بنے ہیں۔
ان میں نومبر میں مہمند ایجنسی کی سلالہ چیک پوسٹوں پر امریکی فضائی حملے میں 24 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت دوطرفہ تعلقات کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوئی۔ پاکستان نے اس حملے کے ردعمل میں افغانستان میں غیر ملکی افواج کے لیے رسد لے جانے والے قافلوں پر پابندی عائد کررکھی ہے جبکہ امریکہ اور نیٹو کے ساتھ تعاون کی شرائط پر بھی نظر ثانی کی جارہی ہے۔
مزید برآں بلوچستان میں شمسی ائربیس کو بھی امریکہ سے خالی کروالیا گیا ہے جہاں سے پرواز کرنے والے ڈرون طیارے مبینہ طور پر قبائلی علاقوں میں میزائل حملے کررہے تھے۔