اسلام آباد —
براک اوباما 2008ء میں امریکہ کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوئے جو کہ ایک تاریخی لمحہ تھا لیکن 2012ء میں ان کا دوبارہ انتخاب درحقیقت اس سے بھی بڑا سنگ میل ہے۔
ملک میں سست رفتار معیشت، آٹھ فیصد کے ارد گرد ہچکولے لیتی بے روزگاری کی شرح اور اس بیچ کچھ علاقوں میں بڑھتے ہوئے اوباما مخالف جذبات کے تناظرمیں دوسری مدت کے لیے کامیابی حاصل کرنا ایک کٹھن مرحلہ تھا جس کے لیے غیر معمولی انتخابی مہم چلانے کی ضرورت تھی۔
اس صدارتی مہم کے لیے صدر اوباما کو مضبوط تنظیمی ڈھانچہ میسر تھا۔ حالیہ صدارتی مہم میں جدید ٹیکنالوجی کو استعمال میں لاتے ہوئے سوشل میڈیا کے ذریعے پیغام بجھوانے سمیت معلومات کے حصول کے ایک ’ڈیٹا بیس‘ کی تیاری بھی شامل تھی۔
اس ڈیٹا بیس کی تیاری میں ایک پاکستانی ریاض غنی نے بھی کردار ادا کیا، وہ 17 سال سے امریکہ میں مقیم ہیں اور پاکستان کے ایک موقر انگریزی روز نامے ’ڈان‘ سے انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ’’مجھے دو مقاصد نے متحرک کیا، ایک تو تعلیم اور یہ سمجھنا کہ ہم کیسے سیکھ سکتے ہیں، دوسرا یہ ڈیٹا کے استعمال سے کمپیوٹر کو زیادہ تیز بنا کر بڑے مسائل کا حل تلاش کرنا۔‘‘
براک اوباما کے لیے 2008ء میں صورتحال آج کی نسبت بہت مختلف تھی۔ انتخاب کنندگان بش کی صدارت سے خوش نہیں تھے اور تبدیلی کا مصمم ارادہ لیے ہوئے تھے۔ اوباما کو ماضی کے کسی فیصلے کا دفاع نہیں کرنا تھا جب کہ ان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت اور ملک میں پایا جانے والا عمومی فکرواحساس ایک ایسا اتفاق تھا جس نے اوباما کی کامیابی کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
اس بار یہ کچھ زیادہ مشکل نظر آتا تھا۔ پہلی مدت صدارت کے دوران کیے گئے کچھ وعدوں کی پاسداری میں ناکامی پر اوباما کے حامیوں کی مایوسی اور ریپبلکنز کی بلند آہنگ مخالفت نے دوسری بار کے لیے صدارتی انتخاب کو اوباما کے لیے مزید مشکل بنا دیا تھا۔
پاکستان میں بھی سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ صدر اوباما کی موثر انتخابی مہم نے ان کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔
اسلام آباد کی قائداعظم یونیورسٹٰی کے شعبہ ’ڈیفنس اینڈ اسٹراٹیجک اسٹیڈیز‘ کے تیمور عباسی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وہ سوشل میڈیا پر امریکہ میں ہونے والے حالیہ انتخابی مہم کا بغور جائزہ لیتے رہے۔
’’مخلتف سروے رپورٹس اور اعداد و شمار کو جس طرح انھوں نے (صدر اوباما کی انتخابی مہم میں) استعمال کیا، میرے خیال میں اس نے بھی ان کی کامیابی میں کافی کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
ملک میں سست رفتار معیشت، آٹھ فیصد کے ارد گرد ہچکولے لیتی بے روزگاری کی شرح اور اس بیچ کچھ علاقوں میں بڑھتے ہوئے اوباما مخالف جذبات کے تناظرمیں دوسری مدت کے لیے کامیابی حاصل کرنا ایک کٹھن مرحلہ تھا جس کے لیے غیر معمولی انتخابی مہم چلانے کی ضرورت تھی۔
اس صدارتی مہم کے لیے صدر اوباما کو مضبوط تنظیمی ڈھانچہ میسر تھا۔ حالیہ صدارتی مہم میں جدید ٹیکنالوجی کو استعمال میں لاتے ہوئے سوشل میڈیا کے ذریعے پیغام بجھوانے سمیت معلومات کے حصول کے ایک ’ڈیٹا بیس‘ کی تیاری بھی شامل تھی۔
اس ڈیٹا بیس کی تیاری میں ایک پاکستانی ریاض غنی نے بھی کردار ادا کیا، وہ 17 سال سے امریکہ میں مقیم ہیں اور پاکستان کے ایک موقر انگریزی روز نامے ’ڈان‘ سے انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ’’مجھے دو مقاصد نے متحرک کیا، ایک تو تعلیم اور یہ سمجھنا کہ ہم کیسے سیکھ سکتے ہیں، دوسرا یہ ڈیٹا کے استعمال سے کمپیوٹر کو زیادہ تیز بنا کر بڑے مسائل کا حل تلاش کرنا۔‘‘
براک اوباما کے لیے 2008ء میں صورتحال آج کی نسبت بہت مختلف تھی۔ انتخاب کنندگان بش کی صدارت سے خوش نہیں تھے اور تبدیلی کا مصمم ارادہ لیے ہوئے تھے۔ اوباما کو ماضی کے کسی فیصلے کا دفاع نہیں کرنا تھا جب کہ ان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت اور ملک میں پایا جانے والا عمومی فکرواحساس ایک ایسا اتفاق تھا جس نے اوباما کی کامیابی کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
اس بار یہ کچھ زیادہ مشکل نظر آتا تھا۔ پہلی مدت صدارت کے دوران کیے گئے کچھ وعدوں کی پاسداری میں ناکامی پر اوباما کے حامیوں کی مایوسی اور ریپبلکنز کی بلند آہنگ مخالفت نے دوسری بار کے لیے صدارتی انتخاب کو اوباما کے لیے مزید مشکل بنا دیا تھا۔
پاکستان میں بھی سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ صدر اوباما کی موثر انتخابی مہم نے ان کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔
اسلام آباد کی قائداعظم یونیورسٹٰی کے شعبہ ’ڈیفنس اینڈ اسٹراٹیجک اسٹیڈیز‘ کے تیمور عباسی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وہ سوشل میڈیا پر امریکہ میں ہونے والے حالیہ انتخابی مہم کا بغور جائزہ لیتے رہے۔
’’مخلتف سروے رپورٹس اور اعداد و شمار کو جس طرح انھوں نے (صدر اوباما کی انتخابی مہم میں) استعمال کیا، میرے خیال میں اس نے بھی ان کی کامیابی میں کافی کلیدی کردار ادا کیا تھا۔