امریکہ کا انتخابی عمل پیچیدہ بھی ہے اور دلچسپ بھی ، پاکستان کے عام انتخابات کے برعکس یہاں انتخابی موسم زیادہ گرم نہیں ہوتا۔ یہاں دولت مند صاحب ثروت اور سنجیدہ امیدواروں کے ساتھ ساتھ ایسے امیدوار بھی میدان میں اتر آتے ہیں، جنہیں اپنے قریبی حلقے کے سوا کوئی جانتا تک نہیں ۔ ان کے پاس کوئی سنجیدہ پروگرام بھی نہیں ہوتا مگر وہ بڑی سنجیدگی سے یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ انہیں الیکشن لڑکر صدر بن جانا چاہیے اور صرف وہی ایک ایسی شخصیت ہیں جو ملک کو بہتر انداز میں چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ورمن سپریم بھی ایک باقاعدہ انتخابی امیدوار تھے ۔ وہ امریکہ میں جمہوریت کی علامت ہیں۔
نیو ہیمپشائر امریکہ کی ان چند ریاستوں میں سے ہے ، جہاں انتخابی میدان میں اترنے والے کو صرف ایک ہزار ڈالر خرچ کرنا پڑتا ہے ۔کاغذی کارروائی نہ ہونے کے برابر ہے ، پچھلے ہفتے یہاں ہونے والی پرائمریز میں 44 انتخابی امیدوار تھے ۔ جن میں سے زیادہ تر کو اس ریاست کے لوگ جانتے تک نہیں ۔
اور ان سے جو چاہے ملاقات بھی کر سکتا ہے ایسی پارٹیز میں ، جہاں جوش بھی ہے ، کھانے پینے کا انتطام بھی اور منتظر صحافی بھی ۔ ایک اور صدارتی امیدوار باب گرین کا کہناہے کہ اگر ہم پچاس سال تک ہر روز ایک ری ایکٹر تیار کریں ، تو ہم دنیا کے ہر فوسل فیول سے چلنے والے ری ایکٹر کو تبدیل کر سکتے ہیں ، جس سے عالمی درجہ حرارت کم ہو جائے گا ۔
اسی طرح فریڈ کارگر بھی صدارتی امیدوار ہیں اور ان کا تعلق ہم جنس پرستوں سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میری ترجیح ہے ملازمت اورفوری ملازمت۔
کچھ ووٹروں کو ان کی باتیں پسند آئیں ، لیکن انہوں نے کوئی فیصلہ نہیں کیا ۔ فلپ مائیو کہتے ہیں کہ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ یہ مٹ رومنی جیسے دولت مند امیدواروں کے سامنے کھڑے ہو سکیں گے یا نہیں ۔
ان امیدواروں کو انتخابی ریس میں اپنی حیثیت کا علم تھا لیکن وہ اسی بات پر بھی خوش تھے کہ ان کی آواز سنی جا رہی ہے ۔