رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: صدارتی انتخاب کا سال


’امیریکن الیکٹ‘ نامی ادارے کا مقصد یہ ہے کہ اُسے امریکہ کی تمام 50 ریاستوں کے بیلیٹ تک رسائی حاصل ہو تاکہ ایک آئیڈیل قسم کا صدارتی امیدوار چُنا جائے، جو پارٹی بازی سے بالاتر ہو کر عوام کی بھلائی کے لئے کام کرے

امریکہ میں صدارتی انتخابات کے سال کے دوران انتخاب کے متبادل طریقوں کو آزمانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن، اخبار ’سیکرا منٹو بی‘ کہتا ہے کہ اِس سال ایسی ہی ایک مہم چلانے کی جو کوشش کی جارہی ہے اُس کا زور ٹوٹ رہا ہے۔

’امیریکن الیکٹ ‘ نامی ادارہ منافع نہ دینے والی ایک کارپوریشن ہےجسے ایک ارب پتی پِیٹر ایکر مان نےقائم کیا ہے، کیونکہ وہ امریکہ کی روائیتی طرز کی سیاست سے غیر مطمئن ہیں ۔اس تنظیم کا مقصد یہ ہے کہ اُسے امریکہ کی تمام 50 ریاستوں کے بیلیٹ تک رسائی حاصل ہو تاکہ ایک آئیڈیل قسم کا صدارتی امید وار چُنا جائے، جو پارٹی بازی سے بالاتر ہو کر عوام کی بھلائی کے لئے کام کرے۔

اس کے لئے انٹرنیٹ کے ذریعے جُون کے مہینے میں پرائمری انتخابات کرانا مقصُود ہے،جس میں ایک پارٹی سے صدارتی امید وار اور دوسری پارٹی سے نائب صدر کے عُہدے کے لئے امید وار کا چناؤ کیا جائے گا، جو پھر مل کر اور پارٹی بازی سے بالاتر ہوکر ملک کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لئے کام کریں گے ۔ اس کوشش کے ابتدائی مراحل میں صدارتی امید وار کے لئے نیو یارک کے ارب پتی میئر مائیکل بلُوم برگ کا نام لیا جارہا تھا، جن کے پاس ظاہر ہے کہ انخابی مہم چلانے کے لئے کافی سرمایہ ہے۔ لیکن اُن کے مشیر نےکُچھ دیر بعد اس کی تردید کر دی۔کئی دوسرے امیدوار بھی اس اکھاڑے میں اُتر سکتے ہیں، مثلاًٹیکسس کے ری پبلکن رکن کانگریس ران پال یا ورمانٹ کے برنی سانڈرز۔ران پال لبر ٹیرین ہیں،اور اس وقت ری پبلکن حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔

امیریکن ایلیکٹ کے حامیوں کو امّید تھی ۔ کہ اُن کے پاس اپریل کے مہینے تک سنجیدہ امیدواروں کے نام آ جائیں گے لیکن ایسا ہوا نہیں اور اب تاریخ جُون تک ملتوی کر دی گئی ۔

صدر اوباما کے صحت کی نگہداشت کے متعلّق قانون کی حیثیت پر پچھلے ہفتے امریکی سپریم کورٹ میں تین دن کے طویل بحث کے بعد اب اس عدالت کا حتمی فیصلہ جون کے مہینے تک آنے کی توقّع ہے۔

اِس پر ’ وال سٹریٹ جرنل ‘کہتا ہے کہ ایک ہفتے قبل لبرل سیاسی حلقوں کا خیال تھا کہ بیمہ خریدنے سے متعلق وفاقی مینڈیٹ کو ردّ کرنے کا امکان نہیں ہے۔ لیکن اب ان حلقوں نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اگر اس مینڈیٹ کو مسترد کر دیا گیا ، تو اسے سیاسی طرف داری کی نظر سے دیکھا جائے گا۔ اور جیسا کی ایک لبرل اخبار نے ایک ادارئے میں کہا ہے اُس صورت میں إس عد الت کی آئینی حیثیت پرسوال اُ ٹھ کھڑے ہونگے ۔

اخبار نے اِسے سیاسی لابی انگ سے تعبیر کیا ہے ۔ کیونکہ، جسٹس انیتھونی کینیڈی پر یہ نقطہ چینی نہیں کی گئ ہے جن سے لبرل حلقے یہ امید کرتے ہیں کہ ان کا ووٹ اس قانون کو برقرار رکھنے کے حق میں جائے گا۔ لیکن اگر انہوں نے تین ججوں سکلیا، علی ٹو اور کلیرنس ٹامس کا ساتھ دیا تو اُن کی کڑی تنقید ہوگی ، جب کہ بقول اخبار کے، چیف جسٹس جان رابرٹس کے بارے میں یہ حلقے کہہ رہے ہیں کہ اس مقدّمے پر اُن کا فیصلہ جج کی حیثیت سے ان کی کار کردگی کے معیار کی جانچ ہوگی۔ اخبار کی نظر میں سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے جسٹس رابرٹس کا یہ شُہرہ ہے۔ کہ ااُن کی سر توڑکوشش عدالت میں اتفاق رائےپیدا کرنے کے حق میں رہی ہیں ۔

اخبار کہنا ہے کہ ان ججوں سے کہا جا رہا ہے کہ اگر انہوں نے اس قانون کو کالعدم قرار دیا ، تو اُن کی شُہرت کو بٹّہ لگے گا۔ لیکن اخبار کہتا ہے کہ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ جسٹسز اِس سیاسی دباؤ کو نظر انداز کر کررہے ہیں۔ لیکن اخبار کے خیال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں اس دعوے کے خلاف تحفّظ فراہم ہونا چاہئے کہ کسی قانون کو کالعدم قرار دینے کا مطلب جُوڈیشیل ایکٹو ِزم نہیں ہے ۔ بلکہ، اخبار کی نظر میں یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ اگر انہوں نے اس قانون کو منسوخ نہیں کیا تو یہ بات آئینی اصولوں کے دفاع کرنے میں کوتاہی سے تعبیر کیا جائے گا۔

’ ہیوسٹن کرانیکل‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق سال ٹ لیک سٹی کی ایک 101 سالہ خاتون نے پیراگلائیڈ کرنے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے۔ اور گنس عالمی ریکاردز میں اس کانام پیرا گلائیڈ کرنے والے معمر ترین خاتو ن کے طور پر درج کیا گیا ہے۔میری ہارڈی سن نامی اس دادی اماں نے اپنے انسٹرکٹر کے ساتھ یہ سفر کیا تھا۔جب اس نے اپنی سالگرہ پر یہ جمپ لگانے کا فیصلہ کیا تھا تو اسکے عزیز بہت پریشان ہوئے تھے کیونکہ یہ اس کی پہلی پرواز تھی۔ہارڈی سن اپنے آپ کو خیرات کے لئے رضائیاں بنانے میں مصروف رکھتی ہے۔ جب اس سے پوچھا گیا۔ کہ آیا وہ دوبارہ ایسی مہم پر جائے گی تو اس کا کہنا تھا، ’ اگر جی چاہا تو ضرور جاؤں گی‘۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG