امریکی نژاد دہشت گرد انور الاولکی کی جمعے کے روز یمن میں ہلاکت پر’ یو ایس اے ٹوڈے‘ ایک اداریے میں کہتا ہے کہ اِسے قابلِ نفرین القاعدہ تنظیم کا سر قلم کرنے کی حیرت انگیز حد تک کامیاب مہم میں ایک اور قدم کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔
اخبار کہتا ہے کہ اوسامہ بن لادن کو اپنے بہت سارے معاونین کی ساتھ ٹھکانے لگا دیا گیا ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ 9/11کے بعد اس تنظیم کا قلع قمع کرنے کا نصب العین پورا ہونے کو ہے اور اب جزیرہ نما عرب میں اِس تنظیم کی سب سے زیادہ خطرناک شاخ کا بھی قلع قمع ہوگیا ہے اور جِس ڈرون حملے میں الاولکی کو ہلاک کیا گیا اُسی میں ایک اور امریکی شہری سمیر خان کو بھی، جو دہشت گرد بن گیا تھا، ہلاک کردیا گیا۔
اخبار کہتا ہے کہ الاولکی کی ہلاکت محض ایک اور دہشت گرد کی ہلاکت نہیں ہے، کیونکہ اُس شخص کو امریکہ، اُس کی زبان اور کلچر پر جو عبور تھا، اس کی وجہ سے اس کا زندہ رہنا خاص طور پر خطرناک تھا۔
اخبار کہتا ہے کہ اب تک ڈرون حملوں میں 1000سے زیادہ دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا ہے، لیکن جب گیہوں کے ساتھ گھُن بھی پِس جاتا ہے تو اس سے امریکہ کی شہرت کو نقصان پہنچتا ہے۔ لیکن، ڈرون حملے ایک بھرپور جنگ کا متبادل ثابت ہو رہے ہیں جو 9/11کے بعد کے دور میں دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کا کلیدی ذریعہ بن گئے ہیں۔
اخبار کی نظر میں فوجیں روانہ کرنے یا مقامی فوجوں پر تکیہ کرنے یا پھر ہاتھ پر ہاتھ دھرے رکھنے کے مقابلے میں ڈرون کا سہارا لینا بہرحال بہتر ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ ہدف بنا کر ہلاک کرنے کا حربہ محدود حد تک استعمال ہونا چاہیئے جو صرف جنگ کی صورت میں یا قومی سلامتی کو کسی براہِ راست خطرے سے بچانے کے لیے استعمال ہوسکتا ہے، لیکن اِس میں احتیاط لازمی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ اِن پیش بندیوں پر عمل ہو رہا ہے۔
نتیجہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ بڑی حد تک زیادہ معقول طریقوں سے لڑی جارہی ہے۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ ایک اداریے میں کہتا ہے کہ امریکہ نے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کو امن کے عمل کی تازہ ترین امریکی تجویز پر غور کرنے کا جو مشورہ دیا تھا اس کا دونوں فریقوں کی طرف سے جواب اثبات میں آیا ہے، لیکن جو ایک چال ہے، کیونکہ اِس کا اصل مطلب ’نفی‘ میں ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نتن یاہو نے براہِ راست مذاکرات کا خیر مقدم تو کیا ہے لیکن بعض تشاویش کا اظہار کیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اسرائیل کو اِس تجویز کی جن باتوں پر اعتراض ہے وہ ہےسرحدوں اور سکیورٹی پر ابتدائی معاہدے اور میعاد جس کے تحت امن معاہدہ ایک سال کے اندر اندر طے ہونا چاہیئے۔
فلسطین کی تنظیمِ آزادی کو بھی اس تجویز میں بعض امیدافزا باتیں نظر آئی ہیں۔ لیکن، اس نے واضح کردیا ہے کہ اُسے اُس کی
بات قابلِٕ قبول نہیں ہے کہ مذاکرات بلا تاخیر اور بلا شرط شروع ہوں جِن میں یہودی بستیوں کی تعمیر کو مکمل طور پر بند کرنا شامل ہے۔
اخبار کے خیال میں صدر محمود عباس پیشگی شرائط پر اِس لیے اصرار کر رہے ہیں تاکہ وہ اقوام متحدہ کی طرف سے فلسطینی مملکت کو تسلیم کرانے کی مہم جاری رکھ سکیں ۔
اِسی طرح سے اخبار کا کہنا ہے مسٹر نتن یاہو اقوام متحدہ کی تجویز کو ناکام بنادیں گے اگر اُنھوں نے یہ اعلان کردیا اور جیسا کہ وہ اشارہ بھی دے چکے ہیں کہ وہ فلسطینی ریاست کی سرحدیں 1967ء کے خطوط پر متعین کرنے پر مذاکرات کے لیے تیار ہیں ، بشرطیکہ دونوں فریق ایک دوسرے سے علاقوں کا بھی تبادلہ کریں۔
اخبار’ شکاگو ٹربیون‘ کہتا ہے کہ اُسے تسلیم ہے کہ اُس کا مشورہ ہمیشہ صحیح ہویا نہ ہو حقیقت یہ ہے کہ 1925ء میں اُس نے ایک اداریے میں اور بے شمار دوسرے اداریوں میں اُس مہم کی حمایت کی تھی جس کا مقصد قوم کو اُس تباہ کُن معاشرتی تجربے سے نجات دلانا تھا جو شراب بندی کے نام سے مشہور ہوا تھا اور جس پر اب ایک فلم بنائی گئی ہے۔
اخبار کہتا ہے شراب بندی کے قانون سے شراب کی رسد اور مانگ میں تو سرِ مو فرق نہیں آیا، البتہ اِس کی وجہ سے منظم جرائم پیشہ لوگوں نے ایک اور نیا دھندہ قائم کیا، اور اِس دھدنے کا بالآخر قلع قمع اِس وجہ سے ہوا کہ امریکیوں نے اپنی آزادیوں پر لگائی گئی قدغنوں پر عمل کرنے سے انکار کردیا۔
شراب بندی کا قانون اکیسویں ترمیم کی رُو سے کالعدم قراردیا گیا اور 1933ء سے شائقین کو پھر سے اپنی پسند کا مشروب ملنا شروع ہوگیا۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: