اخبار 'بوسٹن گلوب' نے اپنے ایک مضمون میں ولادی میر پیوٹن کے روس کا صدر بننے کے بعد ماسکو کی مستقبل کی خارجہ پالیسی کا جائزہ لیا ہے۔
"روس کی واپسی" کے عنوان سے اپنے ایک مضمون میں اخبار نے لکھا ہے کہ روس ایک بار پھر عالمی سیاست میں کلیدی اہمیت اختیار کرگیا ہے اور اس وقت عالمی سیاسی افق پر شام اور ایران کی صورت جو دو بحران نمایاں ہیں، ان کا حل روسی تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔
'بوسٹن گلوب' نے لکھا ہے کہ روس کی اس اہمیت کے پیشِ نظر امریکہ کے لیے ولادی میر پیوٹن کو نظر انداز کرنا ناممکن ہوگا جو اخبار کے مضمون نگار کے بقول ایک مشکل اور پیچیدہ شخصیت کے مالک ہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں روس نے القاعدہ کا صفایا کرنے میں امریکہ کی مدد کی ہے، امریکی خواہش پر مشیا ت کے اسمگلروں کے خلاف کریک ڈائون کیا اور افغانستان میں تعینات امریکی افواج کے لیے جانے والی رسد کو اپنے علاقے سے گزرنے کی اجازت دی۔
لیکن اخبار کے مطابق اس تعاون کے باوجود امریکی صدر براک اوباما کے لیے پیوٹن کو اس بات پر راضی کرنا بہت مشکل ہوگا کہ وہ ایران کے جوہری تنازع کے حل اور شام میں جاری خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے امریکہ کے ساتھ تعاون کریں۔
'بوسٹن گلوب' لکھتا ہے کہ پیوٹن وہ واحد عالمی رہنما ہیں جو ایران کے گو شہ نشین اور شکی مزاج سپریم لیڈر علی خانہ ای کومغربی خدشات کا ازالہ کرنے پر آمادہ کرسکتے ہیں۔
اخبار کے مطابق روس ایران کو اسلحہ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ وقتاً فوقتاً عالمی فورمز پر اس کا دفاع بھی کرتا ہے لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ ایران ایک جوہری طاقت بنے۔ لہذا ایسے میں پیوٹن وہ واحد رہنما ہیں جو ایران کو مغرب کے ساتھ اپنے جوہری پروگرام پر کوئی سمجھوتہ کرنے پر راضی کرسکتے ہیں۔
'بوسٹن گلوب' نے لکھا ہے کہ شام کے معاملے میں بھی روس اتنا ہی اہم ہے کیوں کہ شامی صدر بشار الاسد اگر کسی غیر ملکی رہنما کی سنتے ہیں تو وہ پیوٹن ہیں۔ روس کا دمشق پر خاصا اثر و رسوخ ہے اور وہ بشار الاسد کو اقتدار کی منتقلی پر آمادہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
لیکن آخر پیوٹن ایران اور شام کے بحرانوں کو حل کرنے میں امریکہ کی مدد کرنے کی کیا قیمت طلب کریں گے؟ اس سوال پر 'بوسٹن گلوب' لکھتا ہے کہ پیوٹن امریکہ سے روس کا احترام کرنے اور اسے ایک عالمی قوت کی حیثیت سے تسلیم کرنے کا مطالبہ کریں گے۔ اخبار کے مطابق اس تعاون کے بدلے پیوٹن شاید امریکہ سے یورپ میں میزائل دفاعی نظام جیسے بعض دیگر معاملات پر روسی موقف کو تسلیم کرنے کا تقاضا بھی کریں۔
اخبار نے لکھا ہے کہ گو کہ روس امریکہ کا دشمن نمبر ایک تو نہیں رہا لیکن وہ اب بھی اتنی قوت ضرور رکھتا ہے کہ اہم بین الاقوامی معاملات پر امریکی پالیسی کو ناکام بناسکے۔ روس کی اس اہمیت کے پیشِ نظر امریکہ کو اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ مشرقِ وسطیٰ میں جاری بحرانوں کے حل کا راستہ ماسکو سے ہو کر گزرتا ہے۔
امریکی افواج میں جنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ
اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' نے اپنے ایک اداریے میں امریکی مسلح افواج خصوصاً ایئر فورس میں خواتین کو جنسی تشدد کا بنانے کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش ظاہر کی ہے۔
اخبار نے لکھا ہے کہ امریکی مسلح افواج میں فضائیہ کو خواتین کے لیے سب سے موزوں تصور کیا جاتا تھا۔ لیکن فضائیہ کے تربیتی اداروں میں خواتین کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور ایک حالیہ تحقیق کے ذریعے ایسی 30 سے زائد خواتین اہلکار سامنے آئی ہیں جنہیں ان کے مرد ساتھیوں یا اساتذہ نے جنسی طور پر ہراساں کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا یا ان کے ساتھ زیادتی کی۔
اخبار نے لکھا ہے کہ پریشان کن بات یہ ہے کہ ان 30 سے زائد خواتین میں سے صرف ایک افسر نے اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی شکایت درج کرائی جس سے خواتین فوجی اہلکاروں کا اپنے افسران پر عدم اعتماد ظاہر ہوتا ہے۔
امریکی محکمہ دفاع 'پینٹاگون' کے مطابق گزشتہ برس امریکی فوج میں جنسی حملوں کے 19 ہزار واقعات پیش آئے جن میں سے لگ بھگ 3200 کیسز کی شکایات درج ہوئیں یا فوجی حکام کی جانب سے ان کی تحقیقات کی گئیں۔
'واشنگٹن پوسٹ' نے لکھا ہے کہ امریکی مسلح افواج میں جنسی جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کے خلاف کئی برسوں سے جاری کانگریس کی سماعتوں، پینٹاگون کی تحقیقات، 'زیرو ٹالرنس' کے تند و تیز بیانات اور 'ٹاسک فورس' کی سفارشات کے باوجود مسئلہ جوں کا توں ہے اور اس کے حل کی جانب کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔
اخبار نے لکھا ہے کہ اس کی ایک بڑی وجہ ان حملوں کے مرتکب افراد کے خلاف قانونی کاروائی کا خامیوں سے پر طریقہ کار ہے جس میں شکایت کرنے والے ہی خسارے میں رہتا ہے۔ چوں کہ ملزم کے خلاف مقدمہ چلانے یا نہ چلانے کا فیصلہ اس کے افسر کو کرنا ہوتا ہے لہذا اس صورت میں یا تو متاثرہ فرد شکایت درج ہی نہیں کراتا یا پھر یا معاملہ پہلے ہی مرحلے پر دبا دیا جاتا ہے۔
'واشنگٹن پوسٹ' لکھتا ہے کہ فوج میں جنسی جرائم کے مرتکب افراد کو مناسب سزا نہ ملنے کا معاملہ بھی حکام کی توجہ کا طالب ہے جسے ٹھیک کیے بغیر فوج سے اس لعنت کا خاتمہ ممکن نہیں۔ خود محکمہ دفاع کے اعداد و شمار کے مطابق 2011ء میں جنسی جرائم میں ملوث 10 فی صد فوجی اہلکاروں کو مستعفی ہونے کے بدلے کوئی سزا نہیں دی گئی۔ جب کہ ہر تین میں سے ایک ایسا فرد بدستور فوجی سروس انجام دیتا رہا جس پر جنسی تشدد کا جرم ثابت ہوچکا تھا۔
'واشنگٹن پوسٹ' نے لکھا ہے کہ فوجی حکام کو ان کوتاہیوں کے ازالے کے لیے سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا ورنہ ان اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے تو صورتِ حال میں تبدیلی کی امید رکھنا دیوانے کا خواب لگتا ہے۔
"روس کی واپسی" کے عنوان سے اپنے ایک مضمون میں اخبار نے لکھا ہے کہ روس ایک بار پھر عالمی سیاست میں کلیدی اہمیت اختیار کرگیا ہے اور اس وقت عالمی سیاسی افق پر شام اور ایران کی صورت جو دو بحران نمایاں ہیں، ان کا حل روسی تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔
'بوسٹن گلوب' نے لکھا ہے کہ روس کی اس اہمیت کے پیشِ نظر امریکہ کے لیے ولادی میر پیوٹن کو نظر انداز کرنا ناممکن ہوگا جو اخبار کے مضمون نگار کے بقول ایک مشکل اور پیچیدہ شخصیت کے مالک ہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں روس نے القاعدہ کا صفایا کرنے میں امریکہ کی مدد کی ہے، امریکی خواہش پر مشیا ت کے اسمگلروں کے خلاف کریک ڈائون کیا اور افغانستان میں تعینات امریکی افواج کے لیے جانے والی رسد کو اپنے علاقے سے گزرنے کی اجازت دی۔
لیکن اخبار کے مطابق اس تعاون کے باوجود امریکی صدر براک اوباما کے لیے پیوٹن کو اس بات پر راضی کرنا بہت مشکل ہوگا کہ وہ ایران کے جوہری تنازع کے حل اور شام میں جاری خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے امریکہ کے ساتھ تعاون کریں۔
پیوٹن وہ واحد عالمی رہنما ہیں جو ایران کے گو شہ نشین سپریم لیڈر علی خانہ ای کومغربی خدشات کا ازالہ کرنے پر آمادہ کرسکتے ہیںبوسٹن گلوب
'بوسٹن گلوب' لکھتا ہے کہ پیوٹن وہ واحد عالمی رہنما ہیں جو ایران کے گو شہ نشین اور شکی مزاج سپریم لیڈر علی خانہ ای کومغربی خدشات کا ازالہ کرنے پر آمادہ کرسکتے ہیں۔
اخبار کے مطابق روس ایران کو اسلحہ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ وقتاً فوقتاً عالمی فورمز پر اس کا دفاع بھی کرتا ہے لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ ایران ایک جوہری طاقت بنے۔ لہذا ایسے میں پیوٹن وہ واحد رہنما ہیں جو ایران کو مغرب کے ساتھ اپنے جوہری پروگرام پر کوئی سمجھوتہ کرنے پر راضی کرسکتے ہیں۔
'بوسٹن گلوب' نے لکھا ہے کہ شام کے معاملے میں بھی روس اتنا ہی اہم ہے کیوں کہ شامی صدر بشار الاسد اگر کسی غیر ملکی رہنما کی سنتے ہیں تو وہ پیوٹن ہیں۔ روس کا دمشق پر خاصا اثر و رسوخ ہے اور وہ بشار الاسد کو اقتدار کی منتقلی پر آمادہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
لیکن آخر پیوٹن ایران اور شام کے بحرانوں کو حل کرنے میں امریکہ کی مدد کرنے کی کیا قیمت طلب کریں گے؟ اس سوال پر 'بوسٹن گلوب' لکھتا ہے کہ پیوٹن امریکہ سے روس کا احترام کرنے اور اسے ایک عالمی قوت کی حیثیت سے تسلیم کرنے کا مطالبہ کریں گے۔ اخبار کے مطابق اس تعاون کے بدلے پیوٹن شاید امریکہ سے یورپ میں میزائل دفاعی نظام جیسے بعض دیگر معاملات پر روسی موقف کو تسلیم کرنے کا تقاضا بھی کریں۔
اخبار نے لکھا ہے کہ گو کہ روس امریکہ کا دشمن نمبر ایک تو نہیں رہا لیکن وہ اب بھی اتنی قوت ضرور رکھتا ہے کہ اہم بین الاقوامی معاملات پر امریکی پالیسی کو ناکام بناسکے۔ روس کی اس اہمیت کے پیشِ نظر امریکہ کو اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ مشرقِ وسطیٰ میں جاری بحرانوں کے حل کا راستہ ماسکو سے ہو کر گزرتا ہے۔
امریکی افواج میں جنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ
اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' نے اپنے ایک اداریے میں امریکی مسلح افواج خصوصاً ایئر فورس میں خواتین کو جنسی تشدد کا بنانے کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش ظاہر کی ہے۔
اخبار نے لکھا ہے کہ امریکی مسلح افواج میں فضائیہ کو خواتین کے لیے سب سے موزوں تصور کیا جاتا تھا۔ لیکن فضائیہ کے تربیتی اداروں میں خواتین کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور ایک حالیہ تحقیق کے ذریعے ایسی 30 سے زائد خواتین اہلکار سامنے آئی ہیں جنہیں ان کے مرد ساتھیوں یا اساتذہ نے جنسی طور پر ہراساں کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا یا ان کے ساتھ زیادتی کی۔
اخبار نے لکھا ہے کہ پریشان کن بات یہ ہے کہ ان 30 سے زائد خواتین میں سے صرف ایک افسر نے اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی شکایت درج کرائی جس سے خواتین فوجی اہلکاروں کا اپنے افسران پر عدم اعتماد ظاہر ہوتا ہے۔
امریکی محکمہ دفاع 'پینٹاگون' کے مطابق گزشتہ برس امریکی فوج میں جنسی حملوں کے 19 ہزار واقعات پیش آئے جن میں سے لگ بھگ 3200 کیسز کی شکایات درج ہوئیں یا فوجی حکام کی جانب سے ان کی تحقیقات کی گئیں۔
'واشنگٹن پوسٹ' نے لکھا ہے کہ امریکی مسلح افواج میں جنسی جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کے خلاف کئی برسوں سے جاری کانگریس کی سماعتوں، پینٹاگون کی تحقیقات، 'زیرو ٹالرنس' کے تند و تیز بیانات اور 'ٹاسک فورس' کی سفارشات کے باوجود مسئلہ جوں کا توں ہے اور اس کے حل کی جانب کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔
گزشتہ برس امریکی فوج میں جنسی حملوں کے 19 ہزار واقعات پیش آئے جن میں سے صرف 3200 کیسز کی شکایات درج کرائی گئیںپینٹاگون
اخبار نے لکھا ہے کہ اس کی ایک بڑی وجہ ان حملوں کے مرتکب افراد کے خلاف قانونی کاروائی کا خامیوں سے پر طریقہ کار ہے جس میں شکایت کرنے والے ہی خسارے میں رہتا ہے۔ چوں کہ ملزم کے خلاف مقدمہ چلانے یا نہ چلانے کا فیصلہ اس کے افسر کو کرنا ہوتا ہے لہذا اس صورت میں یا تو متاثرہ فرد شکایت درج ہی نہیں کراتا یا پھر یا معاملہ پہلے ہی مرحلے پر دبا دیا جاتا ہے۔
'واشنگٹن پوسٹ' لکھتا ہے کہ فوج میں جنسی جرائم کے مرتکب افراد کو مناسب سزا نہ ملنے کا معاملہ بھی حکام کی توجہ کا طالب ہے جسے ٹھیک کیے بغیر فوج سے اس لعنت کا خاتمہ ممکن نہیں۔ خود محکمہ دفاع کے اعداد و شمار کے مطابق 2011ء میں جنسی جرائم میں ملوث 10 فی صد فوجی اہلکاروں کو مستعفی ہونے کے بدلے کوئی سزا نہیں دی گئی۔ جب کہ ہر تین میں سے ایک ایسا فرد بدستور فوجی سروس انجام دیتا رہا جس پر جنسی تشدد کا جرم ثابت ہوچکا تھا۔
'واشنگٹن پوسٹ' نے لکھا ہے کہ فوجی حکام کو ان کوتاہیوں کے ازالے کے لیے سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا ورنہ ان اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے تو صورتِ حال میں تبدیلی کی امید رکھنا دیوانے کا خواب لگتا ہے۔