امریکہ میں پیر10اکتوبر کولمبس ڈے ہے۔ اخبار ’واشنگٹن ٹائمز‘ اِس موقع پر اپنے اداریے میں لکھتا ہے کرّہٴ ارض پر سب سے زیادہ طاقتور ملک ہونے پر امریکہ کے معذرت خواہانہ رویے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
اخبار لکھتا ہے 100سال سے بھی کچھ عرصہ قبل ’کولمبس ڈے‘ کو’ ڈسکوری ڈے ‘کہا جاتا تھا۔
صدر بنجمن ہیریسن نے 1892ء کے ڈسکوری ڈے پر قوم سے کہا تھا کہ وہ دل وجان سے کرسٹوفر کولمبس کی کامیابیوں کی تکریم کریں ، جو امریکی زندگی کی چار صدیوں پر محیط تھیں۔
اخبار لکھتا ہے حقیقت یہ ہے کہ یہ دِن اعتراف ہے اُس عظمت کا جِس کے لیے کرسٹوفر کولمبس نے آزاد امریکی نسلوں کو امین بنا دیا۔
اخبار لکھتا ہے کولمبس ڈے کو وفاقی یومِ تعطیل کا درجہ 1970ء میں ملا مگر یہ دور تھا ’ِہپی انقلاب‘ کا جس نے سمندروں کی اِس عظیم شخصیت کو جدید سیاسی مصلحتوں کے خلاف جانا اور اسے یورپ میں نوآبادی نظام کا خالق قرار دیا۔
2002ء میں وینزویلا کے ہوگو شاویز نے اس دِن کا نام بدل کر اِسے ’علاقائی مزاحمت‘ کا دِن قرار دیا۔ دو سال بعد کراکس کے سرگرم کارکنوں نے کولمبس کا ایک مجسمہ مسمار کردیا۔
اخبار لکھتا ہے صدر بنجمن ہیریسن کے فرمان کے ایک صدی بعد امریکہ میں زندگی نئی حدود کا سامنا کر رہی ہے۔ ماحولیات کے ماہر انسانی زندگی کو ہی مسئلہ قرار دے رہے ہیں، شہری آزادیاں حکومتی ضابطوں کا سامنا کر رہی ہیں۔
اخبار کے الفاظ میں کولمبس کے دنوں میں لوگ بر اعظموں کا پتہ لگاتے تھے۔ آج ہم بھی اُسی سفر پر رواں ہیں مگر تلاش ہے اپنی اُن آزادیوں کی جِن کے ساحل کہیں گم ہوگئے ہیں۔ تاہم، اخبار اپنے اداریے کے آخر میں لکھتا ہے امریکی آئین کے خالق تین الفاظ We the Peopleیعنی’ ہم عوام‘ اب بھی اتنی قوت رکھتے ہیں اور امریکیوں کی آزادی اُن لوگوں سے محفوظ بنا لیں جو کولمبس کے ورثے کو تحلیل کرنے کی کوشش کریں۔
اخبار’ شکاگو ٹربیون‘ کے اداریے کا عنوان ہے ’اوباما کا بوجھ‘۔ اخبار لکھتا ہے صدارتی امیدواروں کے لیے اُن کی انتخابی ریلیوں میں گونج دار موسیقی سنائی دیتی ہے مگر صدر براک اوباما کے جلسوں میں فی الحال ایک مختلف موسیقی سنائی دے رہی ہے جو بالکل تاریکی میں گونجنے والی سیٹی جیسی لگتی ہے۔
لیکن اخبار کا کہنا ہے کہ ڈیموکریٹس اب بھی اُن کے دوبارہ منتخب ہونے کا بغور جائزہ لے رہے ہیں اور اخبار کے مطابق اِس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو ریپبلیکن صدارتی امیدواروں کی کمزوریاں اور دوسرے یہ امید کہ الیکشن سے پہلے سال بھر کے عرصے میں امریکی معیشت ایک مرتبہ پھر اُبھر کر آئے گی۔
اخبار لکھتا ہے ہو سکتا ہے ان کے سامنے رونالڈ ریگن کی مثال ہو جنھوں نے سنگین کسادبازاری کے دور میں دوبارہ انتخاب لڑا اور 1984ء میں 50میں سے 49ریاستوں میں کامیابی حاصل کی۔
مگر اخبار ’شکاگو ٹربیون‘ کا خیال ہے کہ اِس دلیل میں دو نقائص ہیں۔ ایک تو یہ کہ اوباما کی معیشت دھنک کے رنگوں کا اختتام نظر آتی ہے اور دوسرے اِس میں جلد بہتری کے آثار بھی نظر نہیں آرہے۔
اخبار لکھتا ہے امریکہ میں بے روزگاری کی شرح اقتصادی پیداوار کی سست روی یہ سب مایوس کُن علامتیں صدر اوباما کو جارج ڈبلیو بش سے ورثے میں ملنے والی معیشت کا حصہ ہیں۔ مگر چار برس اپنے وعدے پر برقرار رہنے کے بعد اگر حالات پھر بھی نہ بدلے تو جوابدہ اوباما ہی کو ہونا ہوگا۔
اخبار ’سیاٹل ٹائمز‘ نے ایک ایسے موضوع پر اداریہ لکھا ہے جِس کا سامنا امریکہ میں بسنے والے مسلمانوں کو کسی بھی وقت کسی بھی مقام پر ہوسکتا ہے۔
امریکہ میںHertzوہ کمپنی ہے جو کاریں کرایے پر دیتی ہے اور شٹل بسیں بھی چلاتی ہے۔ اخبار لکھتا ہے ہرٹز نےجمعے کے روز 34ڈرائیوروں کو معطل کردیا اور وہ سب صومالی مسلمان تھے۔ وجہ یہ تھی کہ اُنھوں نے وقت کا اندراج کیے بغیر نماز کے لیے ڈیوٹی سے وقفہ لیا تھا۔
ڈرائیوروں کی مقامی یونین کا کہنا ہے کہ منیجروں نے اس بات سے اتفاق کیا تھا کہ ڈرائیور نماز کے لیے جائیں گے تو وقت کا اندراج نہیں کریں گے۔ مگر کمپنی کا کہنا ہے کہ دو سال پہلے کے ایک معاہدے کے تحت نماز کے لیے وقت کا اندراج ضروری ہے جو کٹوتی کے زمرے میں آتا ہے۔
اخبار لکھتا ہے، اگرچہ، ڈرائیوروں کی یونین ملازمین کے حق میں آواز اُٹھارہی ہے، مگر سب سے بڑھ کر تویہ ہے کہ امریکہ میں مذہبی آزادی اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ مسلمان نمازِ پنجگانہ ادا کرسکتے ہیں۔ چناچہ، اخبار کا کہنا ہے کہ کمپنی کو اپنے اوقات ِکار میں لچک رکھنی ہوگی اور جمعے کو خاص طور پرشام کی شفٹ دو بجے کے بعد شروع کی جائے تاکہ مسلمان ملازمین نماز کے بعد کام پر آسکیں۔
تاہم، اخبار کا کہنا ہے فی الحال معاملہ التوا میں پڑا ہے اور ملازمین بے خوفی سے ڈٹے ہیں:
آڈیو رپورٹ سنیئے: