رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: صدر اوباما کا ہم جنس پرستی کی حمایت میں بیان


یہ پہلا موقع ہے جب صدر اوباما نے ہم جنسوں کی باہم شادیوں کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس سے قبل امریکی صدر یہ کہہ کر اس موضوع پر کھل کر اظہارِ رائے سے گریز کرتے آئے تھے کہ اس بارے میں ان کی سوچ ابھی ارتقائی مراحل میں ہے

صدر براک اوباما کے ہم جنس پرست جوڑوں کی باہم شادیوں سے متعلق بیان کو تمام امریکی اخبارات نے شہ سرخیوں میں شائع کیا ہے۔

صدر اوباما نے بدھ کو امریکی ٹی وی 'اے بی سی نیوز' کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہم جنس جوڑوں کو شادی کرنے کی اجازت ہونی چاہیئے۔

یہ پہلا موقع ہے جب صدر اوباما نے ہم جنسوں کی باہم شادیوں کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس سے قبل امریکی صدر یہ کہہ کر اس موضوع پر کھل کر اظہارِ رائے سے گریز کرتے آئے تھے کہ اس بارے میں ان کی سوچ ابھی ارتقائی مراحل میں ہے۔

صدر کے اس بیان پر 'لاس اینجلس ٹائمز' اپنی ایک رپورٹ میں کہتا ہے کہ اس معاملے پر صدر اوباما کے رائے سازی میں ان کے اہلِ خانہ بالخصوص خاتونِ اول مشیل اوباما نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ جب صدر اس معاملے پر گَومگَو کی کیفیت میں تھے اس وقت بھی مشیل اوباما وہائٹ ہاؤس میں ہم جنس پرست جوڑوں کی میزبانی کیا کرتی تھیں۔

اخبار کے مطابق وہائٹ ہاؤس کے مغربی بازو میں، جہاں صدر کا دفتر قائم ہے، کئی ہم جنس پرست ملازمین خدمات انجام دے رہے ہیں، جب کہ خود صدر کی دونوں بیٹیوں کے ایسے دوست اور سہلیاں بھی ہیں جن کے والدین ہم جنس پرست ہیں۔

'ایل اے ٹائمز' کا کہنا ہے کہ صدارتی انتخاب کے سال میں صدر اوباما نے یہ بیان دے کر جہاں ایک جانب آزاد خیال رائے دہندگان کی حمایت حاصل کی ہے وہیں انہوں نے کچھ خطرات بھی مول لیے ہیں۔ اوباما کو اپنے اس نئے موقف کے باعث جنوبی ریاستوں میں نقصان اٹھا نا پڑ سکتا ہے جہاں ایک سروے کے مطابق ہر تین غیر وابستہ ووٹروں میں سے ایک ہم جنس پرستی کا مخالف ہے۔

اخبار نے صدر اوباما کے اس بیان کو صدارتی انتخاب میں ان کے متوقع ری پبلکن حریف مٹ رومنی کے لیے ایک "غیرمتوقع تحفہ" قرار دیا ہے جو ہم جنس پرستوں کی باہم شادی کے مخالف ہیں۔

لیکن صدر کے اس بیان کا بظاہر رومنی پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ رومنی نے 'فوکس ٹی وی' کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں ایک بار پھر اپنا یہ موقف دہرایا ہے کہ وہ ایک ہی جنس کے دو افراد کے درمیان شادی کی حمایت نہیں کرتے۔

اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' نے شام کی صورتِ حال پر اوباما انتظامیہ کی خاموشی کو اپنے اداریے کا موضوع بناتے ہوئے اسے شرم ناک قرار دیا ہے۔

اخبار کا کہنا ہے کہ امریکی اتنظامیہ کے اہلکار بالآخر یہ تسلیم کر نے لگے ہیں کہ شام میں قیامِ امن کے لیے نہ تو اقوامِ متحدہ کی کوششیں بارآور ثابت نہیں ہورہی ہیں اور نہ ہی صدر بشار الاسد کا اپنے مخالفین کے خلاف جاری تشدد بند کرنے کا کوئی ارادہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود صدر اوباما صورتِ حال کے تدارک کے لیے کوئی اور آپشن اختیار کرنے سے انکاری ہیں۔

اخبار کہتا ہے کہ اوباما انتظامیہ نے شام کے معاملے پر "دیکھو اور انتظارکرو" کی جو حکمتِ عملی اپنا رکھی ہے اس کے نتیجے میں صدر بشار الاسد کو اپنے ملک میں قتل و غارت جاری رکھنے کا مزید وقت میسر آئے گا۔

اخبارکے بقول ، شامی حکومت کے خلاف کسی فیصلہ کن اقدام سےامریکہ کے گریز کے نتیجے میں جہاں شامی عوام کی مصیبتوں میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے وہیں خود امریکہ کے مفادات کے لیے خطرات پیدا ہورہے ہیں۔

اخبار کہتا ہے کہ امریکہ کی اس بے عملی کا نتیجہ شام میں خانہ جنگی کی صورت میں ظاہر ہوسکتا ہے جس سے القاعدہ اور دیگر انتہا پسند تنظیمیں فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گی۔ اخبار کے بقول، شام کی خانہ جنگی فرقہ وارانہ فسادات میں بدل سکتی ہے اور اگر ایسا ہوا تو اس کا دائرہ کار پڑوسی ملکوں عراق، لبنان اور ترکی تک پھیلنے کاخدشہ ہے ۔

نیٹو کی جانب سے یورپ میں میزائل دفاعی نظام کی تنصیب کا معاملہ امریکہ اور روس کے درمیان ایک عرصے سے وجہ نِزاع بنا ہوا ہے۔ اس تنازْع پر تبصرہ کرتے ہوئے اخبار 'شکاگو ٹربیون' لکھتا ہے کہ روسی حکام جس طرح نیٹو کو اس معاملے پر دھمکیاں دے رہے ہیں اس سے اس نظام کی ضرورت دو چند ہوجاتی ہے۔

واضح رہے کہ روس کے ایک اعلیٰ فوجی جنرل نے گزشتہ دنوں یہ کہا تھا کہ اگر نیٹو نے روس کو اعتماد میں لیے بغیر دفاعی نظام کی تنصیب کی کوشش کی تو ان کا ملک پیشگی حملہ کرکے اسے تباہ کرسکتا ہے۔

اخبار کا کہنا ہے کہ نیٹو خصوصاً امریکی حکام کی جانب سے میزائل نظام پر روس کے تحفظات دور کرنے کی کوششیں مضحکہ خیز حد تک عاجزانہ ہیں جس کے نتیجے میں روس کا رویہ روز بروز جارحانہ ہوتا جارہا ہے۔

XS
SM
MD
LG