قندھار میں ایک امریکی فوجی کے ہاتھوں کم از کم 16 افراد کی ہلاکت پر وال سٹریٹ جرنل کہتا ہے۔کہ اس کی وجہ سے امریکہ کی اُن کوششوں میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہوگئی ہیں ، جو اس طویل ترین جنگ کے خاتمے کے لئے جاری ہیں۔ اور ایک امریکی اڈے پر قرآن کی بے حُرمتی کے بعد اتوار کے اس واقعے سےواشنگٹن اور کابل کے مابین تناؤ میں مزید اضافہ ہونا یقینی ہے۔ ۔ افغان قانون ساز پہلے ہی مطالبہ کر چکے ہیں۔ کہ ملزم کے خلاف مقدّمہ افغان سرزمین چلایا جائے۔جس کا امکان نہیں کیونکہ افغانستان میں تعینات امریکی فوجی براہ راست امریکی عمل داری میں ہیں۔ اخبار کہتا ہے کہ یہ واقعہ پہلے ہی امریکی سیاسیات پر اثر انداز ہو چکا ہے اورایک ری پبلکن صدارتی امّیدوار نیوٹ گِنگرِچ نے افغانستان سے امریکی فوجیں نکالنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے ایک ٹیلی وژن انٹر ویو میں کہا کہ ا مریکی جانیں ایک ایسے مشن کے لئے خطرے میں ڈالی گئی ہیں جس کا حصول شائد ممکن نہیں۔ قرآن کی بے حرمتی کے واقعے کے بعد طالبان سے کہیں زیادہ حکومت کے حامی ارکانِ پارلیمنٹ نے غیر ملکی فوجوں کے خلاف کشیدگی کی آگ بھڑکانے کی کوشش کی ۔ بلکہ بعض نے جہاد کا نعرہ بُلند کیا۔ خود طالبان نے وقت ضائع کئے بغیر قندھار کی ہلاکتوں کی مذمّت کرتے ہوئے ایک ایک شخص کا قصاص لینے کا عہد کیا۔
واشنگٹن پوسٹ کہتا ہے کہ 16افغان شہریوں کی ہلاکت پر غم و غصّے کے تناظُر میں امریکہ کو اس جنگ سے عوام کی اُکتاہٹ کا سامنا ہے۔ اخبارنے اے بی سی نیوز کے ساتھ مل کر رائے عامّہ کا ایک تازہ جائزہ لیا ہے جس کے مطابق امریکہ اس ملک میں جو کُچھ حاصل کرنے چاہتا ہے۔ اس ملک کے عوام کی بھاری اکثریت یعنی 55 فی صد باور کرتے ہیں۔ کہ افغانستان کے بیشتر لوگ اُس کے خلاف ہیں۔ 54 فی صد چاہتے ہیں کہ امریکی فوجوں کو اُس ملک سے افغان فوج کو خود کفیل بنانے کے اُس فرض پورا کئے بغیر ہی واپس آ جانا چاہئے۔ جو صدر اوبامہ کی حکمت عملی کا ایک ستُون ہے ۔
اس جائیزے سے ظاہر ہے کہ بیشتر ڈیموکریٹ اور آزاد خیال لوگ تو بُہت عرصے سے اس جنگ سے عاجز آچکے ہیں ۔ لیکن اب ری پبلکن بھی ا س بات پر تقریباً برابر برابر بٹے ہوئے ہیں۔کہ دس سال سے جار ی اس جنگ کو جاری رکھنے کا کوئی فائدہ ہے۔
ری پبلکن صدارتی امید واروں میں نیوٹ گنگرچ اور ران پال افغانستان سے امریکی فوجیں ہٹا نے کے لئے تیار ہیں۔ البتہ سابق گورنر مِٹ رامنی اور سابق سینیٹر رِک سینٹورم کا موقّف اس کے برعکس ہے اور انہوں نے مسٹر اوبامہ کے 2014 تک اس ملک سے فوجیں واپس لانے کی مخالفت کی ہے ۔
اخبار کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی کے شعبے میں مسٹر اوبامہ کی کارکردگی کو ووٹروں میں بڑی قدر و منزلت حاصل ہے۔خصوصاً مئی کے مہینے کےاس واقعے کے بعد جس میں انہوں نے پاکستان میں ہیلی کاپٹر وں سے جرا ءتمندانہ حملے کا حکم دے کر اوسامہ بن لادن کو کیفر کردار تک پہنچایا تھا ۔ لیکن حالیہ ہفتوں کے دوران افغانستان سے تسلسل کے ساتھ بُری خبریں آ رہی ہیں۔ جس سے اخبار کے خیال میں جو چیز پہلے صدر کے لئے سیاسی طاقت کا ذریعہ مانی جاتی تھی۔ وہی اب نومبر کے آتے آتے کہیں اُن کے لئے گھاٹے کا سودا نہ بن جائے۔اخبار کہتا ہے کہ مجموعی طور پر ا ے بی سی نیوز کے ساتھ مشترکہ استصواب سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ ساٹھ فی صد امریکی محسوس کرتے ہیں۔ کہ اس جنگ میں جتنی انسانی جانیں ضا ئع ہوئی ہیں اور اس پر جتنا بھاری خرچ اُٹھا ہے۔ اس کے ماحصل سے اس کا جواز نہیں بنتا۔ اور تقریباً دو سال سے تسلسل کے ساتھ عوام کی اکثریت نے اس جنگ کی مخالفت کی ہے۔
لاس انجلس ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق اس انتخابی سال میں امریکہ میں صارفیں کے لئئے پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے ۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ اوبامہ انتظامیہ کے دور میں غیر ملکی تیل پر امریکہ کے انحصار میں کمی آئی ہے اور ملک کے اندر تیل اور گیس کی پیداوار میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔خام تیل کی درآمد میں دس فی صد یا دس لاکھ بیرل یومیہ کمی آئی ہے امریکہ اس وقت اپنی تیل ضروریات کا 45 فی صد درآمد کرتا ہے ۔ تین سال قبل یہ تناسب 57 فی صد تھا۔ پچھلے سال خا م تیل کی پیداوار ایک سال پہلے کے مقابلے میں ایک لاکھ بیس ہزار بیرل یومیہ بڑھ گئی ۔ اخبار کہتا ہے کہ ایک حالیہ جائزے کے مطابق بیشتر امریکیوں کا خیال ہے کہ مسٹر اوبامہ اور کانگریس کے لئے ممکن تھا۔ کہ پٹرول کے دام بڑھنے سے روکنے کے لئے مزید قدم اُٹھائیں۔ بلکہ ری پبلکنوں اور تیل کمپنیوں کا مطالبہ ہے کہ سرکاری زمین اور ساحل کے قریب سمندر میں تیل تلاش کی اجازت دی جائے۔ لیکن اخبار کہتا ہے ۔کہ تیل کی کتنی بھی تلاش کی جائے۔ تیل کی در آمد کی پھر بھی ضرورت رہے گی۔ پوُری دنیا میں تیل کے جتنے ذخائر ہیں ان کا صرف دو فی صد امریکہ میں ہے۔ جب کہ تیل کی عالمی پیداوار کے ایک چوتھائی کی کھپت امریکہ میں ہوتی ہے۔