شکاگو کے’ سالانہ آٹو شو‘ کی مناسبت سے، اخبار ’شکاگو ٹربیون‘ ایک اداریے میں کہتا ہے کہ امریکی موٹر کار صنعت اقتصادی کساد بازاری کے دوران بُرے حالوں میں چلی گئی تھی، اب اچانک اِس کا سر فخر سے بُلند ہے۔
اخبار کہتا ہےکہ اِس سال امریکہ میں ایک کروڑ 38لاکھ کاریں، چھوٹے ٹرک اور SUVگاڑیاں فروخت ہوں گی۔ سنہ 2009میں یہ تعداد صرف ایک کروڑ تھی۔ لیکن، رواں سال کی تعداد ابھی بھی 2006ء کےایک کروڑ 70لاکھ گاڑیوں کے مقابلے میں کم ہے۔
بہرحال، تین بڑی کمپنیاں جنرل موٹرز، کرائیس لراور فورڈ اب منافع دے رہی ہیں۔ پچھلے سال جنرل موٹرز کو سات اعشاریہ چھ ارب ڈالر کا منافع ہوا۔
اخبار کہتا ہے کہ حکومت امریکہ نے جنرل موٹرز اور کرائیس لرکو 85ارب ڈالر کا قرضہ فراہم کرکے سہارا دیا تھا۔اور اس میں شک نہیں کہ اِس امداد سے فائیدہ ہوا ہے اِس سے روزگار کے بے شمار مواقع بچالئے گئےہیں جو ہاتھ سے نکل گئے ہوتے۔ اِس کی بدولت، امریکہ کی یہ بھاری صنعتیں دیوالیہ ہونے سے بچ گئیں۔
’شکاگو ٹریبون‘ کو اِس بات پر خوشی ہے کہ امریکی موٹر کارصنعت مضبوط تر ہوگئی ہے جو صارفین کی مانگ اور طاقت پکڑتی ہوئی معیشت کی ایک اچھی علامت ہے۔
’ڈلس مارننگ نیوز‘ ایک اداریے میں کہتا ہے کہ اگرچہ امریکہ دنیا کا پولیس والا نہیں ہے ،لیکن اِس ملک کے لیے لازمی ہے کہ وہ جارحیت کا مقابلہ کرنے اور اتحادیوں کو امداد فراہم کرنے کےلئے ہمہ وقت تیار ہو، مثلاً اگر بحیرہٴ عرب میں قزاق ایک سمندی جہاز کو ہائی جیک کرکے لے جائیں یا اگر یمن کے کسی دور افتادہ علاقے میں القاعدہ کی کسی چوکی کا سراغ مل جائے۔ امریکہ کی سپیشل آوپریشنز کمان ایسی صورت میں فوری کارروائی کرنے کے لئے پوری طرح لیس ہے۔
اب اس سپیشل اوپریشنز کے اعلیٰ کمانڈر ایڈمرل Bill Mcravenبِل مک رے ون نے پوری دنیا میں اُس کے وسیع تر استعمال میں زیادہ اختیار اور لچک کا مطالبہ کیا ہے اور یہ مطالبہ ایسے وقت آیا ہے جب امریکہ کی روایتی فوجوں میں کمی کی جارہی ہے اور اُن کی سمندر پار تعیناتی متاثر ہورہی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ ایڈمرل مک رے ون کو اُس حملے کی قیادت کےلئے اعزاز دیا جاچُکا ہے، جِس میں اُسامہ بن لادن کو ہلاک کیا گیا تھا۔ لیکن، اِس حملے اور سپیشل اوپریشنز کے دوسرے کارناموں کےباوجود، یہ دنیا اب بھی ایک خطرناک جگہ ہے اور اخبار کا سوال ہے کہ روایتی امریکی فوجوں کی واپس کے بعد اس خلا کو کیونکر پُر کیا جائے گا۔
اگر ایران کے پاس پہلے ہی سے بم موجود ہو تو پھر کیا ہوگا؟ اِس عنوان سے ’واشنگٹن ٹائمز‘ کے کالم نگارPeter Pry پیٹر پرائی کہتے ہیں کہ امریکیوں کی اکثریت ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کےلئے فوجی طاقت کے استعمال کی حمایت کرتی ہے۔ لیکن، اِس کے لیے فرض کر لیا گیا ہے کہ ایران کے پاس بم نہیں ہے۔ اب اگر فرض کریں کہ ایران کے پاس ایک یا اِس سے زیادہ بم ہیں اور اِس میں امریکہ پر وار کرنے کی صلاحیت ہے تو اُس صورت میں یہ سارے اندازے بدل جائیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی کو معلوم نہیں کہ ایران کا جوہری پروگرام کتنی ترقی کر چکا ہے اور یہ باور کرنے کے ٹھوس اسباب ہیں کہ واشنگٹن کا اندازہ غلط ہو۔
ایران کو جوہری تجربہ کرنے کے لیے دنیا کو خبردار کرنے کی ویسے بھی ضرورت نہیں ہے۔
چناچہ،مضمون نگار نے مشورہ دیا ہے کہ، وہائٹ ہاؤس اور کانگریس کو مل کر ایرانی عوام کی اکثریت کو امداد اور ہتھیار فراہم کرنے کے ایک پروگرام پر فوراً عمل شروع کرنا چاہیئے، جو ملاؤں کی حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: