اخبار’ کرسچن سائینس مانِٹر‘ کہتا ہے کہ افغانستان جس سمت جارہا ہے اس پر زیادہ سے زیادہ لوگ تنقید کر رہے ہیں۔ ایک حالیہ جائزے کے بعد یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ بعض شعبوں میں ترقّی ضرور ہوئی ہے لیکن ان لوگوں کی تعدادمیں اضافہ ہو رہا ہے، جو یہ سمجھتے ہیں کہ ملک غلط سمت جا رہا ہے۔
ایسے میں جب صدر حامد کرزئی ایک ایسا خاکہ تیار کر رہے ہیں جس میں سالہا سال تک امریکی فوجوں کی موجود گی کا ذکر ہے، افغانوں کی ایک بھاری تعداد کا کہنا ہے کہ ایک چیز جس سے انہیں اپنی روز مرّہ کی زندگی میں بہت خوف آتا ہے یہ ہے کہ انہیں کہیں غیر ملکی فوجیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ یہ حقائق واشنگٹن میں قائم ادارے ایشیا فونڈیشن کی سالانہ سروے کے بعد منظر عام پر آئے ہیں۔
سروے میں پہلے کے مقابلے میں زیادہ افغانوں نے صحت کی نگہداشت،تعلیم ، اور صاف پانی کی فراہمی کے بارے میں رجایئت کا اظہار کیا۔وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے کانگریس کو افغانستان میں اربو ں ڈالر کی امریکی امداد کی بدولت ملک میں ہونے والی تبدیلیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس وقت 24 لاکھ افغان لڑکیاں سکولوں میں زیر تعلیم ہیں ۔طالبان کے دور میں یہ تعداد محض 5 ہزار تھی۔
اخبار کے بقول، ایشیا فونڈیشن کے ا س سروے سے کچھ تلخ حقائق بھی منظر عام پر آئے ہیں۔اور ایسے لوگوں کا تناسب بڑھ کر 35 فی صد تک پہنچ گیا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ملک غلط سمت جا رہا ہے ۔ جس کی ایک وجہ اخبار کی نظر میں یہ ہو سکتی ہے کہ ملک کے بعض علاقوں میں امریکی فوجوں کی زیادہ تعداد نے طالبان کے خلاف اس سال جو حملے کئے ہیں اور اس کی وجہ سے جو تشدّد بڑھا ہے اورلوگوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ گیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ سروے سے یہ بھی معلوم ہوا ہے۔ کہ ملک کے شدّت پسندوں کے لئے عوامی ہمدردی میں کمی آئی ہے۔
ایشیا فونڈیشن کے اس سروے کے نتائج صدر حامد کرزئی کے لوئے جرگہ کے موقع پر سامنے آئے ہیں، جس میں امریکہ کے ساتھ سٹریٹیجک شراکت دار ی کی شرائط پر غور کیا جا رہا ہے ۔ مسٹر کرزئی نے جرگے کو بتایا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ ایک ایسا سمجھوتہ کرنے کے حق میں ہیں جس کے تحت جب 2014 ءمیں نیٹو کا فوجی مشن مکمّل ہو جائے تو افغانستان میں امریکی فوجی اڈّوں کو برقرار رہنے دیا جائے ۔ اس کے لئے افغان صدر نے یہ شرط رکھی کہ امریکی فوجیں رات کو حملے نہ کریں، افغان گھروں کو حملوں کا نشانہ نہ بنائیں اور افغان شہریوں کو نظر بند نہ کریں۔
اخبار کہتا ہے کہ لوگوں میں امن و امان کی صورت حال کے بارے میں تسلّی نہیں اور اس میں خود مسٹر کرزئی شامل لگتے ہیں ، جنہوں نے اس لوئے جرگے میں جانے کے لئے کار سے جانے کا خطرہ مول لینے کے بجائے ہیلی کاپٹر سے جانے کو ترجیح دی۔
کانگریس کی جس بارہ رکنی کمیٹی کے سپرد امریکی بجٹ خسارے میں اگلے 10 سال میں130 کھرب ڈالر کی کمی لانے کا کام سو نپا گیا ہے اس کے پاس اپنی سفارشا ت مکمّل کرنے کے لئے چند ہی روز رہ گئے ہیں اور معروف ماہر اقتصادیات پال کرُوگ من نے ’نیو یارک ٹائمز‘ میں پیش گوئی کی ہے کہ یہ کمیٹی اس میں ناکام ہو گی ۔ اور ان کا خیال ہے کہ یہ ناکامی ایک اچھی بات ہوگی۔
کروگ من کہتے ہیں کہ کمیٹی کے اندر ری پبلکن اور ڈیموکریٹک ارکان کے مابین وسیع خلیج ہے۔
سب سے پہلے اقتصادی انصاف کے بارے میں دونوں کے نظریا ت قطعی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ڈیموکریٹ سوشیل سیکیورٹی سے لے کر فُوڈ سٹیمپس تک کے اقدامات کو معاشرتی بہبود کے ان لازمی اخلاقی فریضوں میں شمار کرتے ہیں جِن کی بدولت بنی نوع انسان کو بنیادی تحفظ فراہم ہوتا ہے اور حاجتمندوں کی کفالت میں مدد ملتی ہے ۔
لیکن مصنّف کا کہنا ہے کہ ری پبلکنوں کا نظریہ اس کے برعکس ہے۔ اگرچہ وہ پبلک میں اسے گھما پھرا کر کہتے ہیں۔ کروگ من کا خیال ہے کہ اگر کمیٹی میں کوئی سمجھوتہ ہو جاتا ہےتو اس کے نتیجے میں ملک کی اقتصادی کسادبازاری میں مزید ابتری آئے گی ۔ کیونکہ معیشت کی ابتر حالت میں اخراجات میں کٹوتی کرنے سے روزگار کے مواقع مزید دب جایئنگے اور غالباًاس کی وجہ سے حال اور مستقبل میں آمدنی میں کمی واقع ہوگی۔
اور جیسا کہ فیڈرل رزرو نے کہا ہے، معیشت 2014 تک ابتری کا شکار رہے گی ۔ اسی لئے مصنّف کے خیال میں بہتر یہی ہوگا کہ کمیٹی میں کوئی سمجھوتہ ہی نہ ہو جِس کی وجہ سے اگلے چند برسوں کے دوران اخراجات میں کٹوتی کی جاتی رہے گی۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: