ہندوستان نے جمعرات کے روز جس ترقّی یافتہ بین ا لبرّ اعظمی بیلسٹک مزائیل کا کامیاب تجربہ کیا ہےاس پر’ وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ جوہری ہتھیار لے کر جانے کی صلاحیت والے اس مزائیل کی پہنچ بیجنگ اور شنگھائی تک ہےاور نئی دلّی کو امید ہے کہ اس سے چین کو اس کی قوت مزاحمت کا کُچھ اندازہ ہو جاے گا۔
اخبار نے ماہرین کے حوالے سے بتایا ہے کہ ہندوستان کے اسلحہ خانے میں اس سب زیادہ ترقی یافتہ ہتھیار کے اضافے نے اُسے چین کے برابر کر دیا ہے جس کے پاس پہلے ہی ایسے مزائیل موجود ہیں جن میں ہندوستان کے بہت اندر تک مار کرنے کی صلا حیت ہے۔اس مزائیل کی پہنچ پانچ ہزار کلو میٹر ہے یعنی سابقہ مزائیلوں کے مقابلے میں بہت کہیں زیادہ۔ اُن کی پہنچ ساڑھے تین ہزار کلو میٹر تھی، جو چین کے بڑے شہروں تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔
نئی دہلی کے پالیسی ریسرچ سینٹر کے سیکیورٹی کے ماہر بھارت کرناڈ کا کہنا ہے کہ اس نئے مزائیل کے طفیل ہندوستان اب مزاحمت کے شعبے میں چین کے برابر آ گیا ہے۔
دونوں ملکوں کے مابین 1962 میں سرحدی جنگ ہوئی تھی جو چین نے جیتی تھی۔ ان کی چار ہزار کلومیٹر مشترکہ سرحد کے بُہت سے طویل علاقوں پر جھگڑا چل رہا ہے۔باوجودیکہ باہمی تجارتی تعلّقات میں گرمجوشی آئی ہے۔
بیجنگ میں روزانہ کی بریفنگ کے دوران وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا کہ بیجنگ نے ہندوستان کے اس تجربہ کا نوٹس لیا ہے۔ لیکن اس نے کہا کہ ہندوستان چین کا حریف نہیں ہے بلکہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے والے شراکت دار ہیں۔ اس نے کہا کہ چین سمجھتا ہے کہ دونوں ملکوں کو کافی تگ و دو کے بعد حاصل کئے گئے گرمجوشانہ ددطرفہ تعلّقات کی قدر کرنی چاہئے اور علاقائی امن اور سلامتی کے فروغ کے لئے سرگرمی سے کام کرنا چاہئے ۔
سیکیوریٹی کے ماہر مسٹر کرناڈ کا یہ بھی کہنا تھا کہ جہاں تک پاکستان کا تعلّق ہے، اس نئے مزائیل سے اس ملک کے خلاف اس کی مزاحمت کی صلاحیت میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کیونکہ اس سے کم مسافت والے بھارتی مزائیل پاکستان کے تمام علاقو ں کا احاطہ کر نے کے لئے کافی ہیں۔
ادھر کرسچن سائینس مانٹر کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا نے حال ہی میں دور مار کرنے والے ایک راکیٹ کا جو ناکام تجربہ کیا تھا ۔ اس کامشاہدہ کرنے والوں میں ایران کے انجنئیروں کا ایک وفد بھی موجود تھا ۔ درجن بھر ان انجنئیروں کا تعلّق ایران کی اُس کمپنی سے تھا جو مزائیل اور مصنوعی سیارچے بناتی ہے۔ اخبار کہتا ہے ، کہ ان کی موجودگی اس بات کا تازہ ثبوت ہے ۔ کہ شمالی کوریا اور ایران مزایئلوں کے اور جوہری پروگراموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے ۔ کہ دونوں ملکوں کے یہ پروگرام ایک دوسرے سے مختلف ضرور ہیں۔ لیکن ان کے مقاصد مشترک ہیں۔ یعنی امریکہ کے ساتھ عداوت۔ جس کا نشانہ جنوبی کوریا، جاپان اور اسرائیل بھی ہیں۔
تجزیہ کار کہتے ہیں ۔ فرق یہ ہے کہ شمالی کوریا کےپاس پہلے ہی سے جوہری وارہیڈز موجود ہیں۔ جب کہ ایران کا موقف ہے کہ وُہ ایٹم بم نہیں بنا رہا ۔ شمالی کوریا دورمار کرنے والے مزائیل بنا رہا ہےپچھلے ہفتےکا ناکام مزائیل اُنہیں میں سے ایک تھا۔ ایران کی توجّہ درمیانی مار کرنے والے مزائیلوں پر مرکوز رہی ہے۔اور انہوں نے ایسے مزائیلوں کے بہت سارے ٹیسٹ کئے ہیں۔شمالی کوریا والےایران کے پروگرام کی امداد درمیانی مار کرنے والے نوڈانگ قسم کے مزائیل بھیج کر کی ہے۔جس کی بنیاد دس سال پرانی سوئت ٹیکنا لوگی پر ہے۔
ادھر معروف تجزیہ کار ڈیوڈ اَگنے ٹیس واشنگٹن پوسٹ میں رقمطراز ہیں۔ کہ ایران کے ساتھ ایک سمجھوتے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے۔کہ حتمی تصفئے کی جُزیات استنبول میں پچھلے ہفتے کے مذاکرات کے بعد واضح ہو گئی ہیں ۔ جن کے تحت ایران 20 فی صد کی حد تک یورینیم کی افزودگی کرنا بند کر دےگا۔ اور اُس زیر زمین تنصیب پر کام بند کر دے گاجو قُم کے قریب افزودگی کے لیے قائم کی گئی تھی۔ ایران اپنا نہائت ہی افزودہ یورینیم کا سٹاک بر امد کرے گا تاکہ اسے حتمی طور پر طبی مقاصد کے لئے آئی سو ٹوپس 20 فی صد تک کی حد تک افزودہ کیا جائے
اگنے ٹیس کہتے ہیں کہ ایران کے جوہری پروگرام کو چین اور روس بھی خطر ناک سمجھتے ہیں اور ایران اس طریقے پر عمل پیرا ہے جس کی بدولت وُہ اس پروگرام سے سبکی کا شکار ہوئے بغیر دستبردار ہو سکتاہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: