کئی مہینوں کےمذاکرات کے بعد کابل میں ایک معاہدے کا مسوّدہ مرتّب ہو گیا ہے جس کے تحت امریکہ آنے والے برسوں کے دوران افغانستان کی مدد کرتا رہے گا۔ اخبار نیو یارک ٹائمز کہتا ہے کہ اس مسودے کا متن جاری نہیں کیا گیا ہے۔لیکن امریکہ کی طرف سے یہ عہد کیا گیا ہے کہ 2014 تک اس کی بر سر پیکار فوجیں افغانستان سے نکل آئیں گی ۔ تو اس کے دس سال بعد تک امریکہ افغانستان کی امداد کرتا رہے گا۔ اخبار کے خیال میں یہ معاہدہ اس وقت کے لئےبڑی اہمیت کا حامل ہے جب امریکہ افغانستان میں لڑنے والی غالب فوج کاکردار ختم کرکے زیادہ روائتی اتّحادی کی حیثیت اختیار کرے گا۔ اس معاہدے میں امریکہ اور افغانستان کے باہمی تعلّقات کی از سر نو وضاحت کی گئی ہے۔ جن کی بنیاد حالیہ ہفتوں کے دوران کافی تگ و دو کے بعد حاصل کردہ کئی امُور پر ایک نئی مفاہمت پر ہے۔ اِن میں ، قیدیوں کا معاملہ ، سپیشیل اوپریشنز کے تحت کئے جانے والے حملے ، اقتصادی ترقّی، اداروں کو فروغ دینا، علاقائی تعاون، اور سیکیورٹی شامل ہیں ۔
اخبار کہتا ہےکہ اس سمجھوتے تک پہنچنے کے لئے نہائت محنت طلب مذاکرات کئے گئے۔ جو درمیان میں کئی بار تعطل کا شکار ہو گئے۔ اور جس کی وجہ اس خطے کے دو طاقتور پڑوسیوں، ایران اور پاکستان کےساتھ جیو پولیٹکل پر خاش تھی۔ اخبار کہتا ہے کہ یہ دونوں ملک افغانستان کے ساتھ امریکہ کے طویل المیعاد تعلّقات کے خلاف ہیں۔
نیو یاک ٹائمز کہتاہے کہ امریکی اور افغان مذاکرات کاروں نے حالیہ دنوں میں اس سمجھوتے کو پایہء تکمیل تک پہنچانےکے لئے بڑی محنت کی ۔ تاکہ 20 مئی کو شکاگو میں نیٹو کانفرنس سے پہلے ہی اس پر دستخط ہو جائیں۔ اس کانفرنس میں یہ طے ہو نا ہے کہ 2014 کے بعد افغان سیکیورٹی افواج کے لئے کتنا روپیہ فراہم کیا جائے گا۔ اور اس میں ہر ملک کتنا دےگا۔
پچھلے سال موسم خزاں میں صدر حامد کرزئی کے ایماء پر منعقدہ لوئے جرگہ نے حکومت پر زور دیا تھاکہ وہ امریکہ کے ساتھ ایک طویل المیعاد سمجھوتہ کرے ۔ کابل میں مغربی سفار ت کاروں کے حوالے سے اخبار کہتا ہے کہ ایک تو اس کی مدد سے دوسرے مغربی ممالک کو ترغیب ملے گی کہ وُہ افغانستان ․ کے لئے اپنی امداد جاری رکھیں۔ اوردوسرے اس کے ذریعے طالبان سمیت چہار اطراف یہ پیغام پہنچے گا کہ2014 کے بعد اُنہیں افغانستان میں دخل در معقولات کا موقع نہیں دیا جائے گا۔
اخبار کہتا ہے کہ طالبان نے چند ہی منٹ بعد اس سمجھوتے کی مذمّت کرتے ہوئے ایک تفصیلی بیان میں کہا کہ اس کا مقصد امریکہکے لئےوسط ایشیا اور کیسپین کے تیل کے چشموں تک رسائی کو آسان بنانا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکہ کو توقع ہے کہ وہ 2014 کے بعد بھی افغان سیکیورٹی افواجکے اخراجات پورا کرنے کےلئے بھاری امداد دیتا رہے گا۔ دوارب ستّر کروڑ ڈالر کی رقم زیر غور رہی ہے۔ لیکن یہ رقم اس سے زیادہ ہو سکتی ہے ۔ کیونکہ اقتصادی پروگراموں کے لئے بھی مدد دی جائے گی۔
اخبار ڈینور پوسٹ ایک اداریے میں کہتا ہے کہ امریکہ اب یورپ میں اپنی فوجیں متعین رکھنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اخبار کہتا ہے کہ ملک پر بجٹ کے جس بھاری خسارے کا بوجھ ہے۔ اس سے نجات پانے کے لئے شائد بالآخر یہ فیصلہ کرنا ہی پڑے گا کہ سرد جنگ کے زمانے سے امریکہ کی جوو 79 ہزار فوجیں یورپ میں موجود ہیں ۔ اُنہیں وہاں سے ہٹا کر وطن واپس بلانے چاہئے۔ خاص طور پر اس وجہ سے بھی کہ سویت یونین کے زوال کو اب دوعشرے سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے
رواں سال کے صدارتی ا نتخابات کے لئے ری پبلکن پارٹی کی طرف سے مٹ رامنی کا امیدوار کا نامزد ہونا اب کم و بیش یقینی ہے۔ اُن کاتعلّق عیسائیوں کے مارمن فرقے سےہے اس وجہ سے اخبار یو ایس اے ٹوڈے ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ ری پبلکن صدارتی نامزدگی جس طویل مرحلے سے گذر رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ اس فرسودہ اور خطرناک تصوّر کا دوبارہ سر اُٹھا نا ہے کہ عوامی عُہدوں کے امیدواروں کو مذہبی عقائد کے امتحان سے گزُارا جائے۔ رک سینٹورم کے صدارتی نامزدگی سے دست بردار ہونے سے پہلے لُوئی زیانا کی پرائمر ی میں اُن کی بھاری فتح کے ایگزٹ پولز سے ظاہر ہو ا کہ 79 فی صد ری پبلکن ووٹروں کا اصرار تھا کہ جس امیدوار کو انہوں نے ووٹ دیاہے ۔ اس کے مذہبی عقائد بھی وہی ہوں جو اُن کے ہیں۔ اخبار کہتا ہے کہ اس میں حیرت کی بات یہ ہے کہ ایسے معاشرتی قدامت پسند جو آئین کے سیدھے سادےمتن کااحترام کرنے کا دم بھرتے ہیں ۔ اس آئینی ہدائت کو نظر انداز کرنے پر تُلے ہوئے ہیں کہ عوامی عہدے کے لئے امیدوارکےمذہبی عقائد کاامتحان نہیں ہونا چاہئے۔ اخبار کہتا ہےکہ آئین کے آرٹیکل6 کی شق 3 میں صاف کہا گیا ہےکہ امریکہ کے کسی عہدے کا انتخاب لڑنے والے سے مذہبی عقائدکا امتحان نہیں لیا جائے گا۔