’وال سٹریٹ جرنل‘ کی رپورٹ ہے کہ امریکہ کی سپیشیل فورسز اُس وقت سے ثانوی کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہو رہی ہیں، جب اگلے سال کے آخر تک اصل اتّحادی فوجیں ملک سے نکل چکی ہوں۔
اخبار کے مطابق امریکی سپیشیل فورسز اور اور خصوصی اعلیٰ امریکی فوجوں کا کردار یُوں بدلے گا کہ وہ میدان جنگ میں عقب کی پوزیشن میں چلی جائیں گی ۔ اِس وقت سپیشیل اوپریشنز کی یہ فوجیں افغان فوجوں کے لئے مشاورت کا کام کررہی ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر لڑائی میں شامل ہوتی ہیں۔لیکن، بقول اخبار کے، بُہت سُوں کا خیال ہے کہ اتّحادی فوجوں کے انخلا کے بعد صورت حال ایسی ہی رہے گی۔
افغانستان کی جنگ میں امریکہ کے 2000 فوجی ہلاک ہو چُکے ہیں۔ لیکن، اگلے محاذوں سے اُن کو پیچھے ہٹانے کے بعدیہ بات اغلب ہے کہ اُن کے زخمی اور ہلاک ہونے کا خطرہ کم ہو جائے گا۔
اخبار کہتا ہے کہ إسی پس منظر میں امریکہ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے کہ افغان کمانڈو ز اور سپیشیل فورسز کو رات کو حملے کرنے لئے راضی کیا جائے ، تاکہ وُہ باغیوں کے چوٹی کے لیڈروں کو گرفتار کریں اور طالبان کے دہشتگردانہ حملوں کے خلاف دفاعی کاروائی کریں اور اس عمل میں امریکی امداد کی ضرورت برابر کم ہوتی جائے۔
اِسی موضوع پر ’نیو یارک ٹائمز ‘ کے تجزیہ کار ڈیوڈ سینگر اور ٹام شنکر کہتے ہیں کہ انتخابات کے بعد اگلی امریکی انتظامیہ کا کام ہوگا افغانستان کی جنگ ختم کرنا ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس ملک میں اپنا اثرو نفوذ برقرار رکھنا، ایک عشرے سے زیادہ کی جنگ کے بعد جو فیصلہ کر نا ہے وُہ تکلیف دہ ہے۔
اگر زیر تربیت افغان تربیت دینے والوں کو ہی نشانہ بناتے رہے تو کیا امریکہ ا ُس صورت میں بھی افغانوں کو فوجی تربیت فراہم کرتا رہے گا۔ اور کیا حامد کرزئی جنہیں امریکی فوجوں کے انخلا کے لگ بھگ عہدے سے سبکدوش ہونا ہے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کو شش جار ی رکھیں گے؟
یا پھر، کیا اُن کی کوشش یہ ہوگی کہ افغانستان کے اندر دس یا پندرہ ہزار امریکی فوجوں کی موجودگی بر قرار رہے؟
تجزیہ کار وں کاکہنا ہے کہ اگر حامد کرزئی کا جا نشیں افغانستان میں امریکی فوجوں کی طویل المیعاد موجودگی پر کوئی سمجھوتہ کرنے میں کامیاب ہو گیا تو پھر یہ سوال پیدا ہوگا آیا ایسا سمجھوتہ اتنا دیر پا ہوگاکہ طالبان کا فوجی لحاظ سے اہم شہروں پر دوبارہ قبضہ ہونا نا ممکن بنایا جائے؟اور اگر طالبان نے ان شہروں کی طرف پھر بڑھنا شروع کیا توکیا امریکی فوجیں پھر اس جنگ میں کُود جائیں گی؟
تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ انسداد دہشت گردی کے پس منظر میں ایک اور مسئلہ پاکستان کے جوہری اسلحہ خانے کا وہ پھیلاؤ ہےجو بیشتر نئے، نسبتاً چھوٹے اور زیادہ متحرک ہتھیاروں کی شکل میں ہوا ہے۔
بُہت سے لوگوں کو اندیشہ ہے کہ ایسے ہتھیاروں کا چُرانا، زیادہ آسان ہوگا اور یہ تشویش اس حقیقت کے پیش نظر بڑھ گئی ہے کہ پاکستان کی دفاعی تنصیبات پر طالبان حملے کر چُکے ہیں اور حالیہ حملوں کا ہدف ایسے مقامات تھے جن کے بارے میں باور کیا جاتا ہےکہ جوہری ہتھیار وہاں ذخیرہ کئے گئے ہیں۔
اور، امریکی عہدہ دار یہ کہتے سُنے گئے ہیں کہ پاکستانیوں کے اندر اُس خطرے کی آگہی پیدا ہو گئی ہےجو قوم کو عسکریت پسندی کی طرف سے درپیش ہے اور یہ کہ حکومت کی طرف سے کئے گئے یہ وعدے بھی اُنہوں نے سُنے ہیں کہ آنے والے موسم سرما میں ایک فوجی کاروائی کی جانے والی ہے۔ لیکن، اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجوں میں تیس ہزار کے اضافے کے آغاز پر بھی اسی قسم کا وعدہ کیا گیا تھا۔
اور اب ذکر ہے ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک بزرگ سیاست دان، جارج میک گورن کا ،جِن کا نوے سال کی عمر میں انتقال ہوا ہے۔وہ تین بارسینیٹ کے رُکن منتخب ہوئے تھے، جس دوران انہوں نے غربت کے خلاف اور شہری حقوق کی حمائت میں جدو جہد کی اور سینیٹ میں ویت نام کی جنگ کی مخالفت میں پیش پیش رہے۔جنگ کی اس مخالفت ہی کی وجہ سےانہوں نے سنہ1972 میں رچرڈ نکسن کے خلاف صدارتی انتخاب لڑا، جس میں وہ بری طرح ہار گئے۔اور انہیں الیکٹورل کالج مین نکسن کے 520 ووٹوں کے مقابلے میں صرف 17 ووٹ ملے۔
اُن کی انتخابی مہم ’واٹر گیٹ ہوٹل‘ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ہیڈکوارٹرز پر نقب زنی کے پس منظر میں ہوئی۔اور نکسن کی پارٹی کی چندہ جمع کرنے کےقابل اعتراض طریقوں اور اور سیبو تاژ کی کارستانیوں کے پس منظر میں بھی، جو بعد میں ڈرٹی ٹرکس
dirty tricks یا مذموم ہتھکنڈوں کے نام سے مشہور ہوئیں اور جن کا انکشاف انتخابات کے بعد ہی کیا گیا۔
واٹر گیٹ کے اس سکینڈل کی وجہ سے بعد میں خود رچرڈ نکسن کو صدارت سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔
اخبار کے مطابق امریکی سپیشیل فورسز اور اور خصوصی اعلیٰ امریکی فوجوں کا کردار یُوں بدلے گا کہ وہ میدان جنگ میں عقب کی پوزیشن میں چلی جائیں گی ۔ اِس وقت سپیشیل اوپریشنز کی یہ فوجیں افغان فوجوں کے لئے مشاورت کا کام کررہی ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر لڑائی میں شامل ہوتی ہیں۔لیکن، بقول اخبار کے، بُہت سُوں کا خیال ہے کہ اتّحادی فوجوں کے انخلا کے بعد صورت حال ایسی ہی رہے گی۔
افغانستان کی جنگ میں امریکہ کے 2000 فوجی ہلاک ہو چُکے ہیں۔ لیکن، اگلے محاذوں سے اُن کو پیچھے ہٹانے کے بعدیہ بات اغلب ہے کہ اُن کے زخمی اور ہلاک ہونے کا خطرہ کم ہو جائے گا۔
اخبار کہتا ہے کہ إسی پس منظر میں امریکہ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے کہ افغان کمانڈو ز اور سپیشیل فورسز کو رات کو حملے کرنے لئے راضی کیا جائے ، تاکہ وُہ باغیوں کے چوٹی کے لیڈروں کو گرفتار کریں اور طالبان کے دہشتگردانہ حملوں کے خلاف دفاعی کاروائی کریں اور اس عمل میں امریکی امداد کی ضرورت برابر کم ہوتی جائے۔
اِسی موضوع پر ’نیو یارک ٹائمز ‘ کے تجزیہ کار ڈیوڈ سینگر اور ٹام شنکر کہتے ہیں کہ انتخابات کے بعد اگلی امریکی انتظامیہ کا کام ہوگا افغانستان کی جنگ ختم کرنا ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس ملک میں اپنا اثرو نفوذ برقرار رکھنا، ایک عشرے سے زیادہ کی جنگ کے بعد جو فیصلہ کر نا ہے وُہ تکلیف دہ ہے۔
اگر زیر تربیت افغان تربیت دینے والوں کو ہی نشانہ بناتے رہے تو کیا امریکہ ا ُس صورت میں بھی افغانوں کو فوجی تربیت فراہم کرتا رہے گا۔ اور کیا حامد کرزئی جنہیں امریکی فوجوں کے انخلا کے لگ بھگ عہدے سے سبکدوش ہونا ہے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کو شش جار ی رکھیں گے؟
یا پھر، کیا اُن کی کوشش یہ ہوگی کہ افغانستان کے اندر دس یا پندرہ ہزار امریکی فوجوں کی موجودگی بر قرار رہے؟
تجزیہ کار وں کاکہنا ہے کہ اگر حامد کرزئی کا جا نشیں افغانستان میں امریکی فوجوں کی طویل المیعاد موجودگی پر کوئی سمجھوتہ کرنے میں کامیاب ہو گیا تو پھر یہ سوال پیدا ہوگا آیا ایسا سمجھوتہ اتنا دیر پا ہوگاکہ طالبان کا فوجی لحاظ سے اہم شہروں پر دوبارہ قبضہ ہونا نا ممکن بنایا جائے؟اور اگر طالبان نے ان شہروں کی طرف پھر بڑھنا شروع کیا توکیا امریکی فوجیں پھر اس جنگ میں کُود جائیں گی؟
تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ انسداد دہشت گردی کے پس منظر میں ایک اور مسئلہ پاکستان کے جوہری اسلحہ خانے کا وہ پھیلاؤ ہےجو بیشتر نئے، نسبتاً چھوٹے اور زیادہ متحرک ہتھیاروں کی شکل میں ہوا ہے۔
بُہت سے لوگوں کو اندیشہ ہے کہ ایسے ہتھیاروں کا چُرانا، زیادہ آسان ہوگا اور یہ تشویش اس حقیقت کے پیش نظر بڑھ گئی ہے کہ پاکستان کی دفاعی تنصیبات پر طالبان حملے کر چُکے ہیں اور حالیہ حملوں کا ہدف ایسے مقامات تھے جن کے بارے میں باور کیا جاتا ہےکہ جوہری ہتھیار وہاں ذخیرہ کئے گئے ہیں۔
اور، امریکی عہدہ دار یہ کہتے سُنے گئے ہیں کہ پاکستانیوں کے اندر اُس خطرے کی آگہی پیدا ہو گئی ہےجو قوم کو عسکریت پسندی کی طرف سے درپیش ہے اور یہ کہ حکومت کی طرف سے کئے گئے یہ وعدے بھی اُنہوں نے سُنے ہیں کہ آنے والے موسم سرما میں ایک فوجی کاروائی کی جانے والی ہے۔ لیکن، اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجوں میں تیس ہزار کے اضافے کے آغاز پر بھی اسی قسم کا وعدہ کیا گیا تھا۔
اور اب ذکر ہے ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک بزرگ سیاست دان، جارج میک گورن کا ،جِن کا نوے سال کی عمر میں انتقال ہوا ہے۔وہ تین بارسینیٹ کے رُکن منتخب ہوئے تھے، جس دوران انہوں نے غربت کے خلاف اور شہری حقوق کی حمائت میں جدو جہد کی اور سینیٹ میں ویت نام کی جنگ کی مخالفت میں پیش پیش رہے۔جنگ کی اس مخالفت ہی کی وجہ سےانہوں نے سنہ1972 میں رچرڈ نکسن کے خلاف صدارتی انتخاب لڑا، جس میں وہ بری طرح ہار گئے۔اور انہیں الیکٹورل کالج مین نکسن کے 520 ووٹوں کے مقابلے میں صرف 17 ووٹ ملے۔
اُن کی انتخابی مہم ’واٹر گیٹ ہوٹل‘ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ہیڈکوارٹرز پر نقب زنی کے پس منظر میں ہوئی۔اور نکسن کی پارٹی کی چندہ جمع کرنے کےقابل اعتراض طریقوں اور اور سیبو تاژ کی کارستانیوں کے پس منظر میں بھی، جو بعد میں ڈرٹی ٹرکس
dirty tricks یا مذموم ہتھکنڈوں کے نام سے مشہور ہوئیں اور جن کا انکشاف انتخابات کے بعد ہی کیا گیا۔
واٹر گیٹ کے اس سکینڈل کی وجہ سے بعد میں خود رچرڈ نکسن کو صدارت سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔