دوحہ میں اقوام متحدہ کی سرپرستی میں موسمیاتی تبدیلی کے متعلق جو کانفرنس ابھی ابھی ختم ہوئی ہے اس پر ’نیو امریکن‘ کہتا ہے کہ اس کے مقاصد میں سے سب سے بڑا یہ تھا کہ کیوٹو، جاپان میں 1997ء میں کاربن ڈائیکسائیڈ کے اخراج کو کم کرنے سے متعلق جو سمجھوتہ طے پایا تھا اور جو لازمی تھا اُس کی مدت میں توسیع کی جائے۔ لیکن، کانفرنس میں شرکت کرنے والے 194ملکوں میں سے صرف 37نے اس کی توسیع پر دستخط کیے۔
امریکہ نے شروع ہی سے اس پر دستخط نہیں کیے تھے کیونکہ امریکی سنیٹ نے کیوٹو سمجھوتے کی توثیق کرنے سے انکار کردیا تھا۔
یہ سمجھوتہ نائب صدر ایل گور کی وساطت سے طے پایا تھا اور بِل کلنٹن نے اس پر دستخط کردیے تھے۔
کینیڈا اس سمجھوتے سے الگ ہوگیا ہے، جبکہ روس اور جاپان نے اس کی توسیع کرنے سے انکار کردیا ہے۔ ہندوستان اور چین پر گرین گیسز کی سب سے زیادہ مقدار کے اخراج کی ذمہ داری آتی ہے اور وہ اس میں مزید اضافہ کرنے والے ہیں۔ عالمی سطح پر کوئلے سے چلنے والے 1200بجلی گھر زیرِ تعمیر ہیں یا بننے والے ہیں جن میں سے 70فی صد انہی دو ملکوں میں ہیں۔
اخبار ’بالٹی مور سن‘ کہتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی یعنی عالمی حرارت سے اور سمندروں کی سطح بلند ہونے اور اس قسم کے موسمی تغیر سے جو تباہی آسکتی ہے اُس کا ایک نمونہ سینڈی نامی طوفان تھا جس نے نومبر کے مہینے میں امریکہ کے مشرقی ساحلوں میں اس قدر تباہی برپا کردی تھی اور جس کے نقصانات کے ازالے کے لیے صدر اوباما لگ بھگ 80ارب ڈالر کی امداد کی سوچ رہے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ موسمیاتی غیر یقینی کوئی واہمہ نہیں ہے۔ ایک طرف کاربن ڈائیکسائیڈ کا اخراج ریکارڈ سطح تک بڑھ جانے کے شواہد ہیں اور دوسری طرف موسمی تبدیلی بد سے بد تر ہوتی جارہی ہے۔
اس اعتبار سے، اخبار کے خیال میں دوحہ کے مذاکرات خالی وعدوں پر ختم ہوئے ہیں جن میں کیوٹو پراٹوکول کو برقرار رکھنے اور مستقبل میں مزید قدم اٹھانے کا عہد کیا گیا جس کی کوئی تفصیل فراہم نہیں کی گئی۔
اخبار کا سوال ہے کہ سینڈی قسم کے کتنے تباہ کُن طوفان اور اِن کے نتیجے میں ہونے والی مزید کتنی تباہی کے بعد عالمی لیڈروں کی سمجھ میں یہ بات آئے گی کہ توانائی کے بارے میں جِن پالیسیوں پر اس وقت عمل ہورہا ہے وہ ہماری قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں؟
ملالہ یوسف زئی کے نام سے موسوم پاکستان اور یونیسکو نے دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے جس منصوبے کا اعلان کیا ہے اورجس کے لیے پاکستان کے صدر نے ایک کروڑ ڈالر کی رقم کا وعدہ کیا ہے اُس پر ’کرسچن سائینس مانٹر‘ کہتا ہے کہ اس منصوبے سے یہ حقیقت اجاگر ہوتی ہے کہ پاکستان میں لڑکیوں کو تعلیم فراہم کرنے کے حالات میں کتنی ابتری آئی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ 2008ء کے بعد سے ملالہ کے آبائی صوبے خیبر پخون خواہ میں طالبان نے ڈیڑھ ہزار سکولوں کے اپنے بموں کا نشانہ بنایا ہے اور حالیہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں چھ سال اور 16سال کی عمروں کے بچوں میں سے 80فیصد سے کم بچے سکول میں داخل ہیں اور اُن میں لڑکیوں کا تناسب صرف 36فیصد ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ جب سے طالبان نے ملالہ کو گولی مار کر زخمی کردیا والدین اپنی بچیوں کو سکول بھیجنے میں زیادہ خوف محسوس کرتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ قبائلی علاقے سے ملحق ایک گاؤں میں ایک سکول کو جولائی میں بم سے اڑا دیا گیا تھا۔ چار ماہ بعد تک اس کا ملبہ پڑا ہوا تھا جو والدین کے دلوں میں خوف پھیلاتا تھا۔ اس سکول کے ایک استاد نے ڈر کی وجہ سے اپنا نام بتائے بغیر کہا کہ طالبان نے اس علاقے میں ایک سال کے اندر چار سکول تباہ کیے ہیں اور اِن حالات میں کوئی سکول جانے کی ہمت کرے گا؟
ماہر عمرانیات ثمر من اللہ اس علاقے میں عورتوں پر تشدد کے خلاف مہم چلاتی رہی ہیں جنھوں نے اخبار کو بتایا کہ طالبان نے پروپیگنڈہ کرکے جو خوف و ہراس اس علاقے میں پھیلایا ہے اس کا سدِباب کمیونی کیشن کی حکمت علمی اپنانے اور سکیورٹی کا مؤثر انتظام فراہم کرنے ہی سے ممکن ہے جس کے بعد تعلیم کا شعبہ بحال ہوسکتا ہے۔
’ڈلس مارننگ نیوز‘ ایک اداریے میں کہتا ہے کہ شراب کے نشے میں گاڑی چلانے کے جُرم کو سو فیصد روکنا ممکن ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ نشے میں گاڑی چلانے کے جرم میں جو لوگ عدالت کے کٹہرے میں پہنچ جاتے ہیں اُن میں ڈاکٹر، وکیل، تعمیراتی مزدور، پولیس افسر اور منتخب لوگ شامل ہیں۔
امریکہ میں نشے میں گاڑی چلانے کے حادثات میں ہلاک ہونے والوں میں ٹیکسس کی ریاست اول نمبر پر ہے اور عام طور سے نشے میں گاڑی والا جب گرفتار ہوتا ہے تو اس سے پہلے 80مرتبہ قسمت آزمائی کرچکا ہوتا ہے۔
اخبار کے مطابق 2010ء میں نشے کی حالت میں گرفتار ہونے والے ڈرائیوروں کی تعداد 14لاکھ سے زیادہ تھی۔ پورے امریکہ میں نشے کی وجہ سے گاڑی کے حادثوں میں 27افراد روزانہ ہلاک ہوتے ہیں اور تقریباً ہر نوے سیکنڈ میں ایسے حادثے میں ایک شخص ہلاک ہوتا ہے۔
امریکہ نے شروع ہی سے اس پر دستخط نہیں کیے تھے کیونکہ امریکی سنیٹ نے کیوٹو سمجھوتے کی توثیق کرنے سے انکار کردیا تھا۔
یہ سمجھوتہ نائب صدر ایل گور کی وساطت سے طے پایا تھا اور بِل کلنٹن نے اس پر دستخط کردیے تھے۔
کینیڈا اس سمجھوتے سے الگ ہوگیا ہے، جبکہ روس اور جاپان نے اس کی توسیع کرنے سے انکار کردیا ہے۔ ہندوستان اور چین پر گرین گیسز کی سب سے زیادہ مقدار کے اخراج کی ذمہ داری آتی ہے اور وہ اس میں مزید اضافہ کرنے والے ہیں۔ عالمی سطح پر کوئلے سے چلنے والے 1200بجلی گھر زیرِ تعمیر ہیں یا بننے والے ہیں جن میں سے 70فی صد انہی دو ملکوں میں ہیں۔
اخبار ’بالٹی مور سن‘ کہتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی یعنی عالمی حرارت سے اور سمندروں کی سطح بلند ہونے اور اس قسم کے موسمی تغیر سے جو تباہی آسکتی ہے اُس کا ایک نمونہ سینڈی نامی طوفان تھا جس نے نومبر کے مہینے میں امریکہ کے مشرقی ساحلوں میں اس قدر تباہی برپا کردی تھی اور جس کے نقصانات کے ازالے کے لیے صدر اوباما لگ بھگ 80ارب ڈالر کی امداد کی سوچ رہے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ موسمیاتی غیر یقینی کوئی واہمہ نہیں ہے۔ ایک طرف کاربن ڈائیکسائیڈ کا اخراج ریکارڈ سطح تک بڑھ جانے کے شواہد ہیں اور دوسری طرف موسمی تبدیلی بد سے بد تر ہوتی جارہی ہے۔
اس اعتبار سے، اخبار کے خیال میں دوحہ کے مذاکرات خالی وعدوں پر ختم ہوئے ہیں جن میں کیوٹو پراٹوکول کو برقرار رکھنے اور مستقبل میں مزید قدم اٹھانے کا عہد کیا گیا جس کی کوئی تفصیل فراہم نہیں کی گئی۔
اخبار کا سوال ہے کہ سینڈی قسم کے کتنے تباہ کُن طوفان اور اِن کے نتیجے میں ہونے والی مزید کتنی تباہی کے بعد عالمی لیڈروں کی سمجھ میں یہ بات آئے گی کہ توانائی کے بارے میں جِن پالیسیوں پر اس وقت عمل ہورہا ہے وہ ہماری قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں؟
ملالہ یوسف زئی کے نام سے موسوم پاکستان اور یونیسکو نے دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے جس منصوبے کا اعلان کیا ہے اورجس کے لیے پاکستان کے صدر نے ایک کروڑ ڈالر کی رقم کا وعدہ کیا ہے اُس پر ’کرسچن سائینس مانٹر‘ کہتا ہے کہ اس منصوبے سے یہ حقیقت اجاگر ہوتی ہے کہ پاکستان میں لڑکیوں کو تعلیم فراہم کرنے کے حالات میں کتنی ابتری آئی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ 2008ء کے بعد سے ملالہ کے آبائی صوبے خیبر پخون خواہ میں طالبان نے ڈیڑھ ہزار سکولوں کے اپنے بموں کا نشانہ بنایا ہے اور حالیہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں چھ سال اور 16سال کی عمروں کے بچوں میں سے 80فیصد سے کم بچے سکول میں داخل ہیں اور اُن میں لڑکیوں کا تناسب صرف 36فیصد ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ جب سے طالبان نے ملالہ کو گولی مار کر زخمی کردیا والدین اپنی بچیوں کو سکول بھیجنے میں زیادہ خوف محسوس کرتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ قبائلی علاقے سے ملحق ایک گاؤں میں ایک سکول کو جولائی میں بم سے اڑا دیا گیا تھا۔ چار ماہ بعد تک اس کا ملبہ پڑا ہوا تھا جو والدین کے دلوں میں خوف پھیلاتا تھا۔ اس سکول کے ایک استاد نے ڈر کی وجہ سے اپنا نام بتائے بغیر کہا کہ طالبان نے اس علاقے میں ایک سال کے اندر چار سکول تباہ کیے ہیں اور اِن حالات میں کوئی سکول جانے کی ہمت کرے گا؟
ماہر عمرانیات ثمر من اللہ اس علاقے میں عورتوں پر تشدد کے خلاف مہم چلاتی رہی ہیں جنھوں نے اخبار کو بتایا کہ طالبان نے پروپیگنڈہ کرکے جو خوف و ہراس اس علاقے میں پھیلایا ہے اس کا سدِباب کمیونی کیشن کی حکمت علمی اپنانے اور سکیورٹی کا مؤثر انتظام فراہم کرنے ہی سے ممکن ہے جس کے بعد تعلیم کا شعبہ بحال ہوسکتا ہے۔
’ڈلس مارننگ نیوز‘ ایک اداریے میں کہتا ہے کہ شراب کے نشے میں گاڑی چلانے کے جُرم کو سو فیصد روکنا ممکن ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ نشے میں گاڑی چلانے کے جرم میں جو لوگ عدالت کے کٹہرے میں پہنچ جاتے ہیں اُن میں ڈاکٹر، وکیل، تعمیراتی مزدور، پولیس افسر اور منتخب لوگ شامل ہیں۔
امریکہ میں نشے میں گاڑی چلانے کے حادثات میں ہلاک ہونے والوں میں ٹیکسس کی ریاست اول نمبر پر ہے اور عام طور سے نشے میں گاڑی والا جب گرفتار ہوتا ہے تو اس سے پہلے 80مرتبہ قسمت آزمائی کرچکا ہوتا ہے۔
اخبار کے مطابق 2010ء میں نشے کی حالت میں گرفتار ہونے والے ڈرائیوروں کی تعداد 14لاکھ سے زیادہ تھی۔ پورے امریکہ میں نشے کی وجہ سے گاڑی کے حادثوں میں 27افراد روزانہ ہلاک ہوتے ہیں اور تقریباً ہر نوے سیکنڈ میں ایسے حادثے میں ایک شخص ہلاک ہوتا ہے۔