رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: پاکستان بھارت تعلقات


کشمیر: چیک پوسٹ
کشمیر: چیک پوسٹ

لائن آف کنٹرول پر ایک دوسرے پر فائرنگ کے واقعات کوئی غیرمعمولی بات نہیں۔ لیکن، ایک فوجی کا سر کاٹنے کے واقعے نے، جس کے لئے پاکستان نے اپنے آپ کو بری الذمّہ قرار دیا ہے، جلتی پر تیل کا کام کیا ہے : ’انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹربیون‘

ہندوستانی زیر انتظام کشمیر میں عوام کو جوہری جنگ کے لئے تیار رہنے اور بنکر بنا کر اس میں کھانے پینے کی چیزیں ذخیرہ کرنے کی جو ہدائت کی گئی ہے اُس پر ’انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹربیون‘ کہتا ہے کہ یہ سب کچھ لائن آف کنٹرول پر سنہ 2003 میں جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد پہلی بار حالیہ بدترین فوجی جھڑپوں کے پس منظر میں ہو رہا ہے، جن میں تین پاکستانی اور دو ہندوستانی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ اِن میں سے ایک ہندوستان فوجی کی لاش بغیر سر کے ملی تھی۔

اخبار کہتاہے کہ اس سربُریدہ لاش کی وجہ سے ہندوستان میں اس قدر اشتعال بڑھ گیا کہ حزب اختلاف کی ایک لیڈر نے مطالبہ کیا کہ اگر پاکستان نے اِس فوجی کا سر واپس نہ کیا تو سرحد کے اُس پار سےکم از کم دس سر لائے جائیں۔

وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ پر جب یہ الزام لگایا گیا کہ وُہ کُچھ نہیں کر رہے، تو انہوں نے کہاکہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلّقات کا جائزہ لے رہے ہیں۔

دونوں ملکوں کے درمیان ایک خصوصی ویزا پروگرام کو معطّل کردیا گیا ہے اور بھارتی ہاکی لیگ میں شامل پاکستانی کھلاڑیوں کو وطن واپس بھیجا جا رہا ہے۔

اب بھارتی کشمیر میں ایٹمی جنگ میں بچاؤ کے بارے میں جو ہدایات جاری کی گئی ہیں، اُس پر کشمیر پولیس کے ایک افسرنے کہا کہ یہ عوا م میں بچاؤ کا ادراک پیدا کرنے کے لئے یہ ایک روایتی ہدائت تھی۔ اخبار کہتا ہے، کہ اگر واقعی یہی بات تھی تو اس کے لئے اس سے زیادہ بُرا وقت نہیں چُنا جا سکتا تھا۔

اخبار کہتا ہے کہ لائن آف کنٹرول پر ایک دوسرے پر فائرنگ کے واقعات کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ لیکن، ایک فوجی کا سر کاٹنے کے واقعے نے جس کے لئے پاکستان نے اپنے آپ کو بری الذمّہ قرار دیا ہے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ ماضی میں جب بھی فوجیوں کی لاشیں اس طرح مسخ ہوئی ہیں تو یہ بات پبلک سے چُھپائی جاتی تھی تاکہ اس طرح کا ہنگامہ نہ اُ ٹھ کھڑا ہو، پاکستان میں انتخابات اسی سال مئی میں ہونے والے ہیں، جب کہ ہندوستان میں اگلے سال ہونگے۔۔


ترقی یافتہ ممالک میں متوسّط طبقے کے روزگار کے مواقع جس بھاری تعداد میں عُنقا ہوئے ہیں، اُس کی زیادہ تروجہ یہ نہیں ہے کہ یہ روزگار ترقی پزیر ملکوں کو منتقل ہوگیا ہے، بلکہ بیشتر امریکی اخباروں میں چھپنے والی ایسو سی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ ہے کہ یہ صورت حال ترقی یافتہ ملکوں کی خود پیدا کردہ ہے۔ پانچ سال قبل کساد بازاری کے آغاز کے بعد ہاتھ سے جانے والے روزگار کے یہ مواقع واپس نہیں آئیں گے، بلکہ جِن ماہرین نے لیبر مارکیٹ کا مطالعہ کیا ہے، اُن کا کہنا ے کہ بے شُما ر مزید ملازمتیں بھی غائب ہو جائیں گی، خاص طور پر سروِس سیکٹر میں۔ روزگار کے مجموعی مواقع کا دوتہائی اِسی سیکٹر میں ہے۔

رپورٹ کے مطابق، روز گار کے مواقع خود ٹیکنالوجی کے ہاتھوں معدوم ہو رہے ہیں۔ عشروں سے سائینس کی کتابوں میں ایک ایسے مستقبل کے بارے میں انتباہ کیا جا رہا تھا جس میں انسان اپنے ہی ہاتھوں فالتُو قرار پائے گا۔ اور ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک تجزئے کے مطابق، وُہ وقت اب آ گیا ہے۔

متعدد شعبوں میں روزگار کے مواقع معدوم ہو رہے ہیں جو سکرٹریوں سے لے کر ٹریول ایجنٹوں کے طبقے تک جاتے ہیں۔ امریکی صدارتی انتخابی مہم کے دوران عوام کو بتایا گیا تھا کہ ملازمتیں چین منتقل ہو گیئں ہیں۔ لیکن، اس رپورٹ کے مطابق اصل حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور یورپ سےبیشتر ملازمتیں کہیں نہیں گئیں اور نہ کسی کو ملیں۔ وُہ بس معدوم ہو گیئں اور اس کے لئے سِلی کان وادی میں کام کرنے والا سافٹ وئیر انجنئیر ہے۔

رپورٹ کے مطابق، ٹیکنالوجی میں نئی نئی اختراؤں کی وجہ سے کئی صدیوں سے لوگوں کا ذریعہٴمعاش جاتا رہا ہے۔ لیکن، بالآخر اس کے نتیجے میں روزی کمانے اور دولت پیدا کرنے کی نئی نئی راہیں بھی کھلیں۔


صدر اوبامہ کی افتتاحی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے اخبار ’نیوُزڈے‘ کہتا ہے کہ صدر نے ایک ترقّی پسندانہ حکومت کا نظریہ پیش کیا جو ریٹائر شُدہ لوگوں کے ساتھ کئے گئے وعدوں کا پاس کرے گی، بیماروں کی نگہداشت کرے گی، تعلیم اور توانائی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کرے گی اور زیادہ سے زیادہ امریکیوں کے حقوق کا احترام کرے گی۔

لیکن، اخبار کہتا ہےکہ صدر کو روز گار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے بارے کُچھ اور بھی کہنا چاہئےتھا، کیونکہ معیشت کے احیا کے بغیر 160 کھرب ڈالر کا قرضہ چُکانا ممکن نہیں ہوگا۔

اخبار نے صدر کے اس اعلان کا خیر مقدم کیا کہ اقتصادی بحالی کا عمل شروع ہو چکا ہے اور جنگ و جدال کا ایک عشرہ اب ختم ہونے کو ہے۔


اخبار نے صدر کے اس اعلان کا بھی خیرمقدم کیا ہے کہ ہمارا یہ سفر اُس وقت تک مکمل نہیں ہوگا جب تک ہم اُن پُراُمید تارکین وطن کو اس ملک میں لانے کی کوئی بہتر سبیل نہیں نکالتے جو امریکہ کو بہتر مواقع فراہم کرنے والی سرزمین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور جب تک لائق اور قابل جوان طالب علموں اور انجنیئروں کو ملک سے نکال باہر کرنے کے بجائے اس ملک کے برسرروزگار لوگوں کی صف میں شامل نہیں کیا جاتا۔
XS
SM
MD
LG