واشنگٹن —
عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان اُس معاہدے پر عمل درآمد شروع کرنے پر اتفاق رائے ہو گیا ہے، جس کے تحت 20 جنوری سے ایران کے جوہری پروگرام پر روک لگ جائے گی، اور اس کے ساتھ ہی، چھ ماہ کی سفارت کاری کا عمل شروع ہو جائے گا، جس کا مقصد ایران کی طرف سے جوہری ہتھیاروں کے خطرے کو ختم کرنا ہے۔
’وال سٹریٹ جرنل‘ نے امریکی یورپی اور ایرانی عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ اتوار کے سمجھوتے کی رُو سے ایران اگلے ہفتے سے ہتھیاروں کے معیار کا جوہری ایندھن بنانا بند کر دے گا۔ اور دوسرے، جوہری کام بھی روک دے گا۔ اس کے عوض، امریکہ اور یورپی اتّحاد کے ممالک ایران کے خلاف لگائی گئی اقتصادی تعزیرات ہٹانا شروع کریں گے، جس کا آغاز اگلے ہفتےسے ایران کی پیٹرو کیمیکلز، موٹر کاروں اور قیمتی دھاتوں کی تجارت کی ممانعت کو ختم کرنے سے ہوگا۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکی اور یورپی عہدہ داروں نے اسے اُس راستے کا تازہ ترین سنگ میل قرار دیا ہے، جو بالآخر، ایران کے جوہری پروگرام کو پُرامن طریقو ں سے ختم کرے گا۔ اگرچہ، اُنہیں یہ تسلیم ہے کہ مذاکرات کی پیچیدگی کے پیش نظر ان کے ناکام ہونے کا بھی امکان ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ، اس معاہدے نے سینئیر امریکی قانون سازوں کے درمیان سیاسی افتراق کو بھی جنم دیا ہے، جنہوں نے اس پر یہ اعتراض اُٹھایا ہے کہ ایران کی جوہری صلاحیتوں پر روک لگانے کے لئے یہ معاہدہ کافی نہیں ہے۔ اور آنے والے ہفتوں کے دوران وہائٹ ہاؤس اور کانگریس کے مابین سیاسی محاذ آرائی کا امکان ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس پر صدر براک اوبامہ کا فوری ردِّعمل آیا ہے، اور اُنہوں نے دہمکی دی ہے کہ اگر کانگریس ایران کے خلاف نئی تعزیرات لگانے کی سفارش کرتی ہے، تو وُہ اُسے وِیٹو کر دیں گے۔
مسٹر اوبامہ نے کہا ہے کہ ایک عشرے کے دوران، یہ معاہدہ پہلا ہے جب ایران کی اسلامی جمہوریہ نے ایسی مخصوص کاروائی کرنے کی حامی بھری ہے، اور جس کے نتیجے میں اُس کے جوہری پروگرام کو پُرامن طریقوں سے بند کیا جاسکتا ہے۔
سینیٹ کے ارکان کے حوالے سے، اخبار کہتا ہے کہ اس معاہدے کی مخالفت کرنے والے سینیٹروں کی تعداد 67 ہے۔ یہ تعداد اتنی ہے کہ اس کو ویٹو نہیں کیا جاسکتا۔
اسرائیل کی طرف سے اس پر ابھی کوئی ردّعمل نہیں آیا ہے۔ لیکن، وُہ ماضی میں ایران کے ساتھ سفارت کاری کی مخالفت کرتا آیا ہے، اور وہ زیادہ کڑی شرائط کا مطالبہ کرتا ہے۔
’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ عمل درآمد کا یہ معاہدہ اتوار کو سات ملکوں کے درمیان مذاکرات کے بعد طے پایا، جن میں ایران کےعلاوہ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان، امریکہ برطانیہ، روس، چین اور فرانس اور جرمنی نے حصّہ لیا۔ یہ سفارتی بلاک پانچ جمع ایک کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔
ایرانی عہدہ داروں نے اس معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے، اِسے صدر حسن روحانی کی اُن کوششوں میں ایک اہم قدم قرار دیا ہے، جن کا مقصد مغربی دنیا کے ساتھ رشتے بڑھانا ہے۔ اگست میں بر سر اقتدار آنے پر انہوں نے اقتصادی تعزیرات کو ختم کراکے ایرانی معیشت کو تقویت پہنچانے کا عہد کیا تھا۔ لیکن، اُنہیں بھی تہران کے قدامت پسند طبقوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا ہے۔
اخبار ’بالٹی مور سن‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ پچاس سال قبل، امریکہ کے صدر لِنڈن جانسن نے غُربت کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تھا، جس کے نتیجے میں حکومت نے متعدد پروگراموں کا آغاز کیا تھا، تاکہ امریکی عوام کے حالات زندگی میں کُچھ بہتری لائی جائے۔
اخبار کہتا ہے کہ قدامت پسند سیاست دانوں نے اس کوشش کو ناکام قرار دینا اپنی عادت بنالی ہے۔ لیکن، سچ بات یہ ہے کہ اسے جُزوی کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے۔
ناقدین اس حد تک تو درست ہیں کہ غُربت امریکہ میں اب بھی موجود ہے۔ لیکن، وہ نہائت اہم اعدادوشمار کو نظر انداز کر رہے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ اقتصادی مشیروں کی کونسل کی ایک حالیہ رپورٹ میں کیا گیا ہے کہ ان پچاس برسوں میں آبادی میں 18 فی صد اضافہ ہوا ہے، جب کہ غربت کا تناسُب ایک تہائی سے گھٹ کر ایک چوتھائی رہ گیا ہے، جو اہم پیش رفت ہے۔
خاندانوں کو غربت سے نکالنے میں جن پروگراموں نے اہم کردار ادا کیا ہے، اُن میں میڈِک ایڈ، سوشیل سیکیورٹی، فُوڈ سٹیمپس جیسی غذائی امداد اور بے روزگاروں کی انشورنس جیسی سکیمیں شامل ہیں۔ اس کونسل کا اندازہ ہے کہ اگر یہ سکیمیں موجود نہ ہوتیں، تو انتہائی غُربت کی شرح پانچ اعشاریہ تین فی صد کی جگہ اُنیس اعشاریہ دو فیصد ہوتی۔
’وال سٹریٹ جرنل‘ نے امریکی یورپی اور ایرانی عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ اتوار کے سمجھوتے کی رُو سے ایران اگلے ہفتے سے ہتھیاروں کے معیار کا جوہری ایندھن بنانا بند کر دے گا۔ اور دوسرے، جوہری کام بھی روک دے گا۔ اس کے عوض، امریکہ اور یورپی اتّحاد کے ممالک ایران کے خلاف لگائی گئی اقتصادی تعزیرات ہٹانا شروع کریں گے، جس کا آغاز اگلے ہفتےسے ایران کی پیٹرو کیمیکلز، موٹر کاروں اور قیمتی دھاتوں کی تجارت کی ممانعت کو ختم کرنے سے ہوگا۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکی اور یورپی عہدہ داروں نے اسے اُس راستے کا تازہ ترین سنگ میل قرار دیا ہے، جو بالآخر، ایران کے جوہری پروگرام کو پُرامن طریقو ں سے ختم کرے گا۔ اگرچہ، اُنہیں یہ تسلیم ہے کہ مذاکرات کی پیچیدگی کے پیش نظر ان کے ناکام ہونے کا بھی امکان ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ، اس معاہدے نے سینئیر امریکی قانون سازوں کے درمیان سیاسی افتراق کو بھی جنم دیا ہے، جنہوں نے اس پر یہ اعتراض اُٹھایا ہے کہ ایران کی جوہری صلاحیتوں پر روک لگانے کے لئے یہ معاہدہ کافی نہیں ہے۔ اور آنے والے ہفتوں کے دوران وہائٹ ہاؤس اور کانگریس کے مابین سیاسی محاذ آرائی کا امکان ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس پر صدر براک اوبامہ کا فوری ردِّعمل آیا ہے، اور اُنہوں نے دہمکی دی ہے کہ اگر کانگریس ایران کے خلاف نئی تعزیرات لگانے کی سفارش کرتی ہے، تو وُہ اُسے وِیٹو کر دیں گے۔
مسٹر اوبامہ نے کہا ہے کہ ایک عشرے کے دوران، یہ معاہدہ پہلا ہے جب ایران کی اسلامی جمہوریہ نے ایسی مخصوص کاروائی کرنے کی حامی بھری ہے، اور جس کے نتیجے میں اُس کے جوہری پروگرام کو پُرامن طریقوں سے بند کیا جاسکتا ہے۔
سینیٹ کے ارکان کے حوالے سے، اخبار کہتا ہے کہ اس معاہدے کی مخالفت کرنے والے سینیٹروں کی تعداد 67 ہے۔ یہ تعداد اتنی ہے کہ اس کو ویٹو نہیں کیا جاسکتا۔
اسرائیل کی طرف سے اس پر ابھی کوئی ردّعمل نہیں آیا ہے۔ لیکن، وُہ ماضی میں ایران کے ساتھ سفارت کاری کی مخالفت کرتا آیا ہے، اور وہ زیادہ کڑی شرائط کا مطالبہ کرتا ہے۔
’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ عمل درآمد کا یہ معاہدہ اتوار کو سات ملکوں کے درمیان مذاکرات کے بعد طے پایا، جن میں ایران کےعلاوہ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان، امریکہ برطانیہ، روس، چین اور فرانس اور جرمنی نے حصّہ لیا۔ یہ سفارتی بلاک پانچ جمع ایک کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔
ایرانی عہدہ داروں نے اس معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے، اِسے صدر حسن روحانی کی اُن کوششوں میں ایک اہم قدم قرار دیا ہے، جن کا مقصد مغربی دنیا کے ساتھ رشتے بڑھانا ہے۔ اگست میں بر سر اقتدار آنے پر انہوں نے اقتصادی تعزیرات کو ختم کراکے ایرانی معیشت کو تقویت پہنچانے کا عہد کیا تھا۔ لیکن، اُنہیں بھی تہران کے قدامت پسند طبقوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا ہے۔
اخبار ’بالٹی مور سن‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ پچاس سال قبل، امریکہ کے صدر لِنڈن جانسن نے غُربت کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تھا، جس کے نتیجے میں حکومت نے متعدد پروگراموں کا آغاز کیا تھا، تاکہ امریکی عوام کے حالات زندگی میں کُچھ بہتری لائی جائے۔
اخبار کہتا ہے کہ قدامت پسند سیاست دانوں نے اس کوشش کو ناکام قرار دینا اپنی عادت بنالی ہے۔ لیکن، سچ بات یہ ہے کہ اسے جُزوی کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے۔
ناقدین اس حد تک تو درست ہیں کہ غُربت امریکہ میں اب بھی موجود ہے۔ لیکن، وہ نہائت اہم اعدادوشمار کو نظر انداز کر رہے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ اقتصادی مشیروں کی کونسل کی ایک حالیہ رپورٹ میں کیا گیا ہے کہ ان پچاس برسوں میں آبادی میں 18 فی صد اضافہ ہوا ہے، جب کہ غربت کا تناسُب ایک تہائی سے گھٹ کر ایک چوتھائی رہ گیا ہے، جو اہم پیش رفت ہے۔
خاندانوں کو غربت سے نکالنے میں جن پروگراموں نے اہم کردار ادا کیا ہے، اُن میں میڈِک ایڈ، سوشیل سیکیورٹی، فُوڈ سٹیمپس جیسی غذائی امداد اور بے روزگاروں کی انشورنس جیسی سکیمیں شامل ہیں۔ اس کونسل کا اندازہ ہے کہ اگر یہ سکیمیں موجود نہ ہوتیں، تو انتہائی غُربت کی شرح پانچ اعشاریہ تین فی صد کی جگہ اُنیس اعشاریہ دو فیصد ہوتی۔