واشنگٹن میں پیر کےروز صدر براک اوبامہ نے دوسری میعاد صدارت کے لئے حلف لینے کے بعد جو تقریر کی تھی اُس پر ’نیو یارک ٹائمز‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ اس تقریر میں ایک ترقّی پسندانہ ایجنڈے کے حق میں بڑی جاندار دلیلیں پیش کی گئیں۔
اس خیال سے کہ کانگریس کے اندر ری پبلکنز کے ساتھ ایک تعطل کی کیفیت موجود ہے، صدر نے براہ راست امریکی عوام سے مخاطب ہو کر اپنے اصُولوں اور ترجیحات کا اعادہ کیا ، موسمیاتی تبدیلی کے خطرے، توانائی کے قابل اعتماد متبادل پر تکیہ کرنے، امی گریشن کی حوصلہ افزائی، بشمول زیادہ انجنئیروں کو ویزے دینے، اور خواتین کے لئے مردوں کے برابر محنتانہ یقینی بنانے کا ذکر کیا۔
اُنہوں نے کہا کہ زندگی کے ہر شُعبے میں امریکی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں،چاہے وُہ سڑکیں تعمیر کرنے کاکام ہو، غریبوں اور بڑے بُوڑھوں کی کفالت کرنا ہو، مزدوروں کی تربیت کا کام ہو یا قدرتی آفات سے نمٹنے کی بات ہو۔
اخبار کہتا ہے کہ دوسری میعاد صدارت میں ایک صدر کے لئے یہ سوچنا ایک قدرتی امر ہے کہ تاریخ میں اس کا کیا مقام ہوگا۔ اور اخبار کو اس میں اس میں کوئی شک نہیں کہ صدر اوبامہ کو قدرت کی طرف سے جو جذبہ اور ذہن رسا ملا ہے اس کی بدولت وہ امریکی صدور کی اوّلیں صف میں شمار ہونگے۔ اور انہوں نے اپنی تقریر سے ایک ایسے ترقی پسندانہ ایجنڈے کی وکالت کی ہے جس سے اس قوم کی مانگیں پوری ہوتی ہیں اور اخبار کو امید ہے کہ صدر کے پاس اس پر عمل درآمد کے لئے درکار ، سیاسی عزم بھی ہے اور صلاحیت بھی۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ نے مسٹر اوبامہ کی تقریر کے بارے میں لکھا ہے کہ اُنہوں نے امریکی منشُور آزادی کی طرح کُھل کر واضح کر دیا ہے کہ وُہ اپنی دوسری میعاد صدارت میں کیا کُچھ کرنا چاہتے ہیں۔ اور اُنہوں نے جن باتوں کا احاطہ کیا ہے اُن میں امی گریشن کی اصلاحات ، ووٹنگ کی اصلاحات، وفاقی سطح پر جو مراعات میسّر ہیں اُنہیں بر قرار رکھنا۔ اسلحے پر کنٹرل، شاہراوں اور بنیادی ڈھانچے کے لئے سر مایہ کاری کرنا مزدوروں کی مزید تربیت کرنا۔ خواتین کے لئےمساویانہ اُجرت اور اقتصادی ناہمواری کو ختم کرنے کے لئے ٹیکسوں کے قواعد میں اصلاح کرنا۔
اسی طرح اخبار کے ایک کالم نویس یُو جٕین رابِن سن حلف وفاداری کی تقریب پر اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ ذرا غور فرمایئے کہ ایک سیاہ فام شخص نے کیپیٹل ہِل کی سیڑھیویوں پر دوسری مرتبہ صدر کا حلف اُٹھایا ہے۔ جی ہاں، دوسری مرتبہ، یعنی ووٹروں نے اُنہیں نہ صرف پہلی مرتبہ منتخب کیا جو کہنے کو اتفاق یا کو گھپلہ ہو سکتا ہے یا محض تُکّہ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن جناب یہ بات نہیں ہے۔ ووٹروں نے دوسری مرتبہ بھی اُنہیں کو ووٹ دیا۔
اور اب اوبامہ کی تقریر کا جو ردّعمل ہوا ہےاُس میں اس حقیقت کی طرف کوئی توجّہ نہیں دی گئی کہ تقریر کرنے والا ایک افریقی امریکی ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ یہ خبر اب پُرانی ہو چُکی ہے۔
البتہ، اُن سیاہ فاموں کے لئے یہ خبر پُرانی نہیں جو امریکہ کے جنوبی علاقوں میں نسلی علٰحدگی کے دور میں پلے بڑھے ہیں جنہوں نے ریو رنڈ مارٹن لُوتھر کِنگ کی تقریریں سُنی ہیں۔ وُہی کِنگ جنہوں نے اس نسلی تفریق کے خلاف جدوجہد کی اور شہری آزادیوں کی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرایا۔
صدر اوبامہ کی افتتاحی تقریر کے لہجے پر ’وال سٹریٹ جرنل‘ کا کہناہے کہ اس سے یہ واضح تاثُّر ملتا ہے کہ صدر اپنے ایجنڈے کے لئے لڑنے کے لئے تیار ہیں، حکومت کے اختیار کی حدود اور مرکز کی طاقت کی محدودات کا اعتراف کرنے کے بعد اُنہوں کے اپنے انتخابی اعلامئے کا یہ مُتبادل رُخ پیش کیا کہ جو لوگ اپنی معاشی زندگی میں کامیاب ہوئے ہیں اُنہوں نے بھی معاشرے سے فراہم ہونے امداد سے فائدہ اُٹھایا ہے۔ چنانچہ، اُنہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ اگر محض معدودے چند لوگوں کو خوشحالی نصیب ہوتی ہے، تو ملک کے حالات نہیں سُدھر نہیں سکتے۔
’شکاگو ٹربیون‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ مسٹر اوبامہ نے صدارت کا حلف اُٹھایا تو اُنہیں معلوم تھا کہ وُہ جو کُچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں اس کے لئے انہیں لڑنا پڑے گا۔ چنانچہ، اخبار کہتا ہے کہ اگر وُہ چاہتے ہیں کہ اُن کی میعاد صدارت رہتی دُنیا تک یاد رکھی جائے، تو اُنہیں چند بنیادی باتیں کرنی ہونگی۔ انہیں صحت عامّہ کی نگہداشت کی اصلاح پر عمل درآمد کو لچکدار اور موثّر بنانا ہوگا اور افغانستان میں فوجی مشن کو اس طرح ختم کرنا ہوگا کہ گیارہ سال کی جنگ میں حاصل کئے گئے سیکیورٹی کے فوائد برقرار رہیں۔ ا س کے علاوہ انہیں شائد ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے باز رکھنے کے لئےزیادہ سخت کاروائی کرنی پڑے گی۔
اس خیال سے کہ کانگریس کے اندر ری پبلکنز کے ساتھ ایک تعطل کی کیفیت موجود ہے، صدر نے براہ راست امریکی عوام سے مخاطب ہو کر اپنے اصُولوں اور ترجیحات کا اعادہ کیا ، موسمیاتی تبدیلی کے خطرے، توانائی کے قابل اعتماد متبادل پر تکیہ کرنے، امی گریشن کی حوصلہ افزائی، بشمول زیادہ انجنئیروں کو ویزے دینے، اور خواتین کے لئے مردوں کے برابر محنتانہ یقینی بنانے کا ذکر کیا۔
اُنہوں نے کہا کہ زندگی کے ہر شُعبے میں امریکی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں،چاہے وُہ سڑکیں تعمیر کرنے کاکام ہو، غریبوں اور بڑے بُوڑھوں کی کفالت کرنا ہو، مزدوروں کی تربیت کا کام ہو یا قدرتی آفات سے نمٹنے کی بات ہو۔
اخبار کہتا ہے کہ دوسری میعاد صدارت میں ایک صدر کے لئے یہ سوچنا ایک قدرتی امر ہے کہ تاریخ میں اس کا کیا مقام ہوگا۔ اور اخبار کو اس میں اس میں کوئی شک نہیں کہ صدر اوبامہ کو قدرت کی طرف سے جو جذبہ اور ذہن رسا ملا ہے اس کی بدولت وہ امریکی صدور کی اوّلیں صف میں شمار ہونگے۔ اور انہوں نے اپنی تقریر سے ایک ایسے ترقی پسندانہ ایجنڈے کی وکالت کی ہے جس سے اس قوم کی مانگیں پوری ہوتی ہیں اور اخبار کو امید ہے کہ صدر کے پاس اس پر عمل درآمد کے لئے درکار ، سیاسی عزم بھی ہے اور صلاحیت بھی۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ نے مسٹر اوبامہ کی تقریر کے بارے میں لکھا ہے کہ اُنہوں نے امریکی منشُور آزادی کی طرح کُھل کر واضح کر دیا ہے کہ وُہ اپنی دوسری میعاد صدارت میں کیا کُچھ کرنا چاہتے ہیں۔ اور اُنہوں نے جن باتوں کا احاطہ کیا ہے اُن میں امی گریشن کی اصلاحات ، ووٹنگ کی اصلاحات، وفاقی سطح پر جو مراعات میسّر ہیں اُنہیں بر قرار رکھنا۔ اسلحے پر کنٹرل، شاہراوں اور بنیادی ڈھانچے کے لئے سر مایہ کاری کرنا مزدوروں کی مزید تربیت کرنا۔ خواتین کے لئےمساویانہ اُجرت اور اقتصادی ناہمواری کو ختم کرنے کے لئے ٹیکسوں کے قواعد میں اصلاح کرنا۔
اسی طرح اخبار کے ایک کالم نویس یُو جٕین رابِن سن حلف وفاداری کی تقریب پر اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ ذرا غور فرمایئے کہ ایک سیاہ فام شخص نے کیپیٹل ہِل کی سیڑھیویوں پر دوسری مرتبہ صدر کا حلف اُٹھایا ہے۔ جی ہاں، دوسری مرتبہ، یعنی ووٹروں نے اُنہیں نہ صرف پہلی مرتبہ منتخب کیا جو کہنے کو اتفاق یا کو گھپلہ ہو سکتا ہے یا محض تُکّہ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن جناب یہ بات نہیں ہے۔ ووٹروں نے دوسری مرتبہ بھی اُنہیں کو ووٹ دیا۔
اور اب اوبامہ کی تقریر کا جو ردّعمل ہوا ہےاُس میں اس حقیقت کی طرف کوئی توجّہ نہیں دی گئی کہ تقریر کرنے والا ایک افریقی امریکی ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ یہ خبر اب پُرانی ہو چُکی ہے۔
البتہ، اُن سیاہ فاموں کے لئے یہ خبر پُرانی نہیں جو امریکہ کے جنوبی علاقوں میں نسلی علٰحدگی کے دور میں پلے بڑھے ہیں جنہوں نے ریو رنڈ مارٹن لُوتھر کِنگ کی تقریریں سُنی ہیں۔ وُہی کِنگ جنہوں نے اس نسلی تفریق کے خلاف جدوجہد کی اور شہری آزادیوں کی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرایا۔
صدر اوبامہ کی افتتاحی تقریر کے لہجے پر ’وال سٹریٹ جرنل‘ کا کہناہے کہ اس سے یہ واضح تاثُّر ملتا ہے کہ صدر اپنے ایجنڈے کے لئے لڑنے کے لئے تیار ہیں، حکومت کے اختیار کی حدود اور مرکز کی طاقت کی محدودات کا اعتراف کرنے کے بعد اُنہوں کے اپنے انتخابی اعلامئے کا یہ مُتبادل رُخ پیش کیا کہ جو لوگ اپنی معاشی زندگی میں کامیاب ہوئے ہیں اُنہوں نے بھی معاشرے سے فراہم ہونے امداد سے فائدہ اُٹھایا ہے۔ چنانچہ، اُنہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ اگر محض معدودے چند لوگوں کو خوشحالی نصیب ہوتی ہے، تو ملک کے حالات نہیں سُدھر نہیں سکتے۔
’شکاگو ٹربیون‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ مسٹر اوبامہ نے صدارت کا حلف اُٹھایا تو اُنہیں معلوم تھا کہ وُہ جو کُچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں اس کے لئے انہیں لڑنا پڑے گا۔ چنانچہ، اخبار کہتا ہے کہ اگر وُہ چاہتے ہیں کہ اُن کی میعاد صدارت رہتی دُنیا تک یاد رکھی جائے، تو اُنہیں چند بنیادی باتیں کرنی ہونگی۔ انہیں صحت عامّہ کی نگہداشت کی اصلاح پر عمل درآمد کو لچکدار اور موثّر بنانا ہوگا اور افغانستان میں فوجی مشن کو اس طرح ختم کرنا ہوگا کہ گیارہ سال کی جنگ میں حاصل کئے گئے سیکیورٹی کے فوائد برقرار رہیں۔ ا س کے علاوہ انہیں شائد ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے باز رکھنے کے لئےزیادہ سخت کاروائی کرنی پڑے گی۔