جزیرہ نُما کوریا میں اِس وقت جو انتہائی تناؤ کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے، اُس پر ’لاس انجلس ٹائمز ‘میں کالم نگار ڈانلڈ گریگ رقم طراز ہے کہ صدر اوبامہ کے مشرق وسطیٰ کے حالیہ دورے سے یہ واضح ہو گیا تھا کہ اگر صدر براہِ راست ذاتی دلچسپی لیں، تو اس سے کتے اچھے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
اس دورے میں مسٹر اوبامہ نے اسرائیلی جوانوں سےخطاب کیا، خطے کے اتّحادیوں کی یقین دہانی کردی اور اُن کی ثالثی کے نتیجے میں اسرئیل نے ترکی سے اس خوفناک حملے کے لئے معافی مانگ لی جو اس نے غزّہ کے لئے سامانِ رسد لے جانے والے سمندر ی جہازوں کے ایک بیڑے پر کیا تھا۔
کالم نگار کےخیال میں صدر کو شمالی کوریا کے ساتھ اسی قسم کی سفارت کاری کو بروئے کار لانا چاہئیے جس کےساتھ امریکہ کی محاذ آرائی خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے۔
پیانگ یانگ سے جس قسم کے اشتعال انگیز بیانات کی یلغار ہو رہی ہے، اسکے پیش نظر کوئی اور قدم اُٹھانا مُشکل لگتا ہے،سوائے اِس کے کہ شمالی کوریا کے لیڈر کِم جان اُن کو نظر انداز کیا جائے۔ لیکن، سفارت کاری سے دستبردار ہو جانا انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ شمالی کوریا والے اِس گُمان میں ہیں کہ اُنہیں اگرک کوئی چیز امریکہ کے حملے سے تحفّظ فراہم کئےہوئے ہے تو وُہ اُن کے جوہری ہتھیار ہیں۔ اورامریکہ نے حال ہی میں کوریا کے جزیرہ نما پرجوہری ہتھیاروں کی صلاحیت والے طیارے اُڑا کر اُنکے اِس وسوسے کو یقین میں بدل دیا۔ چنانچہ، مضمون نگار کا کہنا ہے کہ یہ بات کتنی بھی بُری نظر آئے، ہمیں شمالی کوریا کےساتھ براہ راست مذاکرات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مرحلے پر وہ اپنے جوہری ہتھیاروں سے دست بردار ہونے کے لئے بالکل تیار نہ ہونگے اور امریکہ نے مذاکرات کے لئے اگر یہ پیشگی شرط لگا دی، تو اُس کے نتیجے میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہی ہوگا۔ بلکہ، فوجی دھماکے کا بھی امکان ہے۔ اِن حالات میں مضمون نگار کا سوال ہے کہ امن معاہدے کے لئے مذاکرات کرنا بہتر نہ ہوگا۔
افغان صدر حامد کرزئی نے قطر کا جو دورہ ابھی ابھی کیا ہے اُس کے بارے میں ’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ اُس کا بنیادی مقصد افغانستان کے ڈانوا ڈول امن کے عمل کو سہارا دینا تھا اور خلیج فارس کی اس متمول امارات کے ساتھ تعلّقات کو ٹھیک کرنا تھا، جہاں طالبان اپنا بڑا دفتر قائم کرنے والے ہیں۔
اخبار نے وہاں کے اعلیٰ عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ اگرچہ دورے کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ اِس کا مقصد قظر کے ساتھ دوطرفہ تعلّقات کوبہتر بنانا اوراُسے افغانستان میں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دینا تھا، لیکن بات چیت کےایجنڈے میں جو بات سر فہرست تھی وہ تھی طالبان کو کابل انتظامیہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر آمادہ کرانا۔
سرکاری اعلان کے مطابق، قطری فرماں روا ، شیخ حماد بن خلیفہ الثّانی کےساتھ صدر کرزئی کے مذاکرات دوطرفہ تعلّقات کو استوار کرنے اور افغانستان میں امن کے امکانات پر مرکوز رہے، جبکہ قطر میں مقیم افغان باشندوں سے ایک خطاب میں صدر کرزئی کا لہجہ صلح جویانہ تھا۔
اُنہوں نے کہا کہ ملک میں امن کی بحالی کے لئے ہم سے جوہو سکا ہم وہ کریں گے، کابل میں صدارتی محل سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ افغان حکومت چاہتی ہے کہ طالبان اپنے وطن واپس آجائیں اور اپنے آپ کو غیر ملکی ہاتھوں سے آزاد کریں۔ اسی کے ساتھ ساتھ مسٹر کرزئی نے امن مذاکرات کے لئے جو اعلیٰ کونسل قائم کر رکھی ہے، اُس نے طالبان سے کہا ہے کہ وُہ اگلے سال صدارتی انتخابات سےقبل مذاکرات کے عمل میں شریک ہو جائیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان عوام طالبان اور برسرِ پیکار دوسری مسلّح تنظیموں سے توقع رکھتے ہیں کہ اُنہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اِس قسم کی اپیلوں سے باغی قیادت پر کُچھ اثر پڑے گا، جس نے پچھلے سال سےایک نمائندہ دفتر قائم کرنا شروع کیا ہے، تاکہ امریکی اور افغان سیاست دانوں کے ساتھ مذاکرات کئے جاسکیں۔
طالبان ہائی کمانڈ اب تک کابل کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کے لئے تیار نہیں ہے۔ اخبار کے بقول، مسٹر کرزئی کے قطر کے ساتھ تعلّقات ہمیشہ ٹھیک نہیں رہے ہیں۔ سنہ 2011 میں افغانستان میں امن کے عمل کے لئے قطر کی کوششیں کھٹائی میں پڑگئی تھیں جب مسٹر کرزئی نے قطر سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا ، اور قطر سےمطالبہ کیا تھا کہ وہ طالبان کے ساتھ رابطہ رکھنے کی بنا پر معافی مانگے۔ اِس سفارتی قضئے کے بعد، امریکہ نے مسٹر کرزئی کی یقین دہانی کر دی تھی کہ وُہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں افغان حکومت کو شامل کرنے پر اصرار کرے گا۔
اخبار کے بقول، مسٹر کرزئی کا قطر کا نیا دورہ ایک مدبّرانہ کارنامہ تھا،جس کے بعد، اب اُنہوں نے امن مذاکرات کے بارے میں قظری راستہ اختیا کر لیا ہے ۔ البتہ، کابل حکومت اب کہتی ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے میں پہل اُسی کو کرنی چاہئیے۔ طالبان کے ساتھ کابل حکومت کی جنگ سنہ 2001 سے جاری ہے، جب امریکہ کی قیادت میں افغانستان پر حملہ شروع ہوا تھا۔
ادھر ایک سابق طالبان کمانڈر اکبر آغا ، جو قطر میں طالبان کے اعلیٰ مذاکرات کار ہیں، بگرام کے نظر بندی کے بڑے کیمپ کی نیٹو سے افغان کنٹرول میں منتقلی پر کہا ہے کہ اس کی علامتی سے زیادہ اہمیت ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے کابل کے دورے کے بارے میں اخبار کہتا ہے کہ اِس کےنتیجے میں امریکہ کومسٹر کرزئی کے ساتھ مصالحت کرنے میں ضرور مدد ملی۔ لیکن، اِس کے ساتھ ساتھ، یہ بھی ہوا کہ افغان عہدہ داروں نے پڑوسی پاکستان کے خلاف الزام تراشیاں کرتے ہوئے کہنا شروع کیا کہ اسلام آباد امن کی راہ میں رکاوٹ بن گیا ہے۔
اس دورے میں مسٹر اوبامہ نے اسرائیلی جوانوں سےخطاب کیا، خطے کے اتّحادیوں کی یقین دہانی کردی اور اُن کی ثالثی کے نتیجے میں اسرئیل نے ترکی سے اس خوفناک حملے کے لئے معافی مانگ لی جو اس نے غزّہ کے لئے سامانِ رسد لے جانے والے سمندر ی جہازوں کے ایک بیڑے پر کیا تھا۔
کالم نگار کےخیال میں صدر کو شمالی کوریا کے ساتھ اسی قسم کی سفارت کاری کو بروئے کار لانا چاہئیے جس کےساتھ امریکہ کی محاذ آرائی خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے۔
پیانگ یانگ سے جس قسم کے اشتعال انگیز بیانات کی یلغار ہو رہی ہے، اسکے پیش نظر کوئی اور قدم اُٹھانا مُشکل لگتا ہے،سوائے اِس کے کہ شمالی کوریا کے لیڈر کِم جان اُن کو نظر انداز کیا جائے۔ لیکن، سفارت کاری سے دستبردار ہو جانا انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ شمالی کوریا والے اِس گُمان میں ہیں کہ اُنہیں اگرک کوئی چیز امریکہ کے حملے سے تحفّظ فراہم کئےہوئے ہے تو وُہ اُن کے جوہری ہتھیار ہیں۔ اورامریکہ نے حال ہی میں کوریا کے جزیرہ نما پرجوہری ہتھیاروں کی صلاحیت والے طیارے اُڑا کر اُنکے اِس وسوسے کو یقین میں بدل دیا۔ چنانچہ، مضمون نگار کا کہنا ہے کہ یہ بات کتنی بھی بُری نظر آئے، ہمیں شمالی کوریا کےساتھ براہ راست مذاکرات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مرحلے پر وہ اپنے جوہری ہتھیاروں سے دست بردار ہونے کے لئے بالکل تیار نہ ہونگے اور امریکہ نے مذاکرات کے لئے اگر یہ پیشگی شرط لگا دی، تو اُس کے نتیجے میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہی ہوگا۔ بلکہ، فوجی دھماکے کا بھی امکان ہے۔ اِن حالات میں مضمون نگار کا سوال ہے کہ امن معاہدے کے لئے مذاکرات کرنا بہتر نہ ہوگا۔
افغان صدر حامد کرزئی نے قطر کا جو دورہ ابھی ابھی کیا ہے اُس کے بارے میں ’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ اُس کا بنیادی مقصد افغانستان کے ڈانوا ڈول امن کے عمل کو سہارا دینا تھا اور خلیج فارس کی اس متمول امارات کے ساتھ تعلّقات کو ٹھیک کرنا تھا، جہاں طالبان اپنا بڑا دفتر قائم کرنے والے ہیں۔
اخبار نے وہاں کے اعلیٰ عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ اگرچہ دورے کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ اِس کا مقصد قظر کے ساتھ دوطرفہ تعلّقات کوبہتر بنانا اوراُسے افغانستان میں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دینا تھا، لیکن بات چیت کےایجنڈے میں جو بات سر فہرست تھی وہ تھی طالبان کو کابل انتظامیہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر آمادہ کرانا۔
سرکاری اعلان کے مطابق، قطری فرماں روا ، شیخ حماد بن خلیفہ الثّانی کےساتھ صدر کرزئی کے مذاکرات دوطرفہ تعلّقات کو استوار کرنے اور افغانستان میں امن کے امکانات پر مرکوز رہے، جبکہ قطر میں مقیم افغان باشندوں سے ایک خطاب میں صدر کرزئی کا لہجہ صلح جویانہ تھا۔
اُنہوں نے کہا کہ ملک میں امن کی بحالی کے لئے ہم سے جوہو سکا ہم وہ کریں گے، کابل میں صدارتی محل سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ افغان حکومت چاہتی ہے کہ طالبان اپنے وطن واپس آجائیں اور اپنے آپ کو غیر ملکی ہاتھوں سے آزاد کریں۔ اسی کے ساتھ ساتھ مسٹر کرزئی نے امن مذاکرات کے لئے جو اعلیٰ کونسل قائم کر رکھی ہے، اُس نے طالبان سے کہا ہے کہ وُہ اگلے سال صدارتی انتخابات سےقبل مذاکرات کے عمل میں شریک ہو جائیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان عوام طالبان اور برسرِ پیکار دوسری مسلّح تنظیموں سے توقع رکھتے ہیں کہ اُنہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اِس قسم کی اپیلوں سے باغی قیادت پر کُچھ اثر پڑے گا، جس نے پچھلے سال سےایک نمائندہ دفتر قائم کرنا شروع کیا ہے، تاکہ امریکی اور افغان سیاست دانوں کے ساتھ مذاکرات کئے جاسکیں۔
طالبان ہائی کمانڈ اب تک کابل کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کے لئے تیار نہیں ہے۔ اخبار کے بقول، مسٹر کرزئی کے قطر کے ساتھ تعلّقات ہمیشہ ٹھیک نہیں رہے ہیں۔ سنہ 2011 میں افغانستان میں امن کے عمل کے لئے قطر کی کوششیں کھٹائی میں پڑگئی تھیں جب مسٹر کرزئی نے قطر سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا ، اور قطر سےمطالبہ کیا تھا کہ وہ طالبان کے ساتھ رابطہ رکھنے کی بنا پر معافی مانگے۔ اِس سفارتی قضئے کے بعد، امریکہ نے مسٹر کرزئی کی یقین دہانی کر دی تھی کہ وُہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں افغان حکومت کو شامل کرنے پر اصرار کرے گا۔
اخبار کے بقول، مسٹر کرزئی کا قطر کا نیا دورہ ایک مدبّرانہ کارنامہ تھا،جس کے بعد، اب اُنہوں نے امن مذاکرات کے بارے میں قظری راستہ اختیا کر لیا ہے ۔ البتہ، کابل حکومت اب کہتی ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے میں پہل اُسی کو کرنی چاہئیے۔ طالبان کے ساتھ کابل حکومت کی جنگ سنہ 2001 سے جاری ہے، جب امریکہ کی قیادت میں افغانستان پر حملہ شروع ہوا تھا۔
ادھر ایک سابق طالبان کمانڈر اکبر آغا ، جو قطر میں طالبان کے اعلیٰ مذاکرات کار ہیں، بگرام کے نظر بندی کے بڑے کیمپ کی نیٹو سے افغان کنٹرول میں منتقلی پر کہا ہے کہ اس کی علامتی سے زیادہ اہمیت ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے کابل کے دورے کے بارے میں اخبار کہتا ہے کہ اِس کےنتیجے میں امریکہ کومسٹر کرزئی کے ساتھ مصالحت کرنے میں ضرور مدد ملی۔ لیکن، اِس کے ساتھ ساتھ، یہ بھی ہوا کہ افغان عہدہ داروں نے پڑوسی پاکستان کے خلاف الزام تراشیاں کرتے ہوئے کہنا شروع کیا کہ اسلام آباد امن کی راہ میں رکاوٹ بن گیا ہے۔