امریکی سفارت خانے نے پاکستان کے اس دعوے کو مسترد کیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ کرم ایجنسی میں بدھ کو ڈورن حملے کا ہدف افغان پناہ گزینوں کا ایک کیمپ تھا۔
اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے ترجمان نے ایک مختصر بیان میں کہا ہے کہ ’’پاکستانی وزارتِ خارجہ کے بیان میں گزشتہ روز کیا گیا یہ دعویٰ کہ امریکی فورسز نے کرم ایجنسی میں افغان مہاجرین کے کیمپ کو نشانہ بنایا غلط ہے۔‘‘
تاہم ترجمان نے کرم ایجنسی میں کیے گئے ڈرون حملے کی نہ تو تصدیق کی اور نہ ہی تردید۔
اُدھر پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ ’آئی ایس پی آر‘ سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ہدف 24 جنوری کو کیے گئے ڈرون حملے کا نشانہ کرم ایجنسی میں قائم افغان مہاجرین کے ایک کیمپ میں موجود "انفرادی ہدف" تھا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ حملہ دہشت گردوں کی کسی منظم پناہ گاہ پر نہیں کیا گیا تھا۔
فوج کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پاکستان میں افغان مہاجرین کے کل 54 کیمپ ہیں جن میں سے 43 کیمپ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں (فاٹا) میں ہیں۔
بیان کے ساتھ افغان مہاجرین کے مختلف علاقوں میں قائم کیمپوں کا ایک نقشہ بھی جاری کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس واقعے میں جس طرح دہشت گرد افغان مہاجرین کے کیمپ میں ملا اس سے پاکستان کے اِس موقف کی تصدیق ہوتی ہے کہ دہشت افغان مہاجرین کے ساتھ با آسانی گھل مل سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ بدھ کو افغان سرحد سے ملحق پاکستان کے قبائلی علاقے کرم ایجنسی میں ایک مشتبہ ڈرون حملے میں دو مبینہ شدت پسند مارے گئے تھے جن کے بارے میں یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ اُن کا تعلق افغان طالبان کے دھڑے حقانی نیٹ ورک سے ہے۔
لیکن اس حملے کے بعد پاکستان کی وزارتِ خارجہ سے بدھ کی شام جاری بیان میں نہ صرف ڈرون حملے کی مذمت کی گئی بلکہ یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ اس کا نشانہ کرم ایجنسی میں قائم افغان مہاجرین کا ایک کیمپ تھا۔
پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے جمعرات کو ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں کہا کہ یہ کارروائی افغانستان میں تعینات امریکی افواج کی زیرِ قیادت ریزولوٹ سپورٹ مشن نے کی تھی۔
ترجمان نے بتایا کہ کرم میں ایجنسی میں افغان مہاجرین کے دو کیمپ ساتھ ساتھ ہیں جن میں سے ایک کو نشانہ بنایا گیا۔
اُنھوں نے کہا کہ ایسی یک طرفہ کارروائیاں دہشت گردی کے خلاف پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعاون کے لیے نقصان دہ ہیں۔
ترجمان محمد فیصل کا کہنا تھا کہ پاکستان امریکہ سے کہتا رہا ہے کہ وہ پاکستانی حدود میں موجود شدت پسندوں کے بارے میں قابلِ عمل انٹیلی جنس معلومات فراہم کرے تاکہ پاکستان فورسز اپنی سر زمین پر اُن دہشت گردوں کے خلاف خود کارروائی کریں۔
اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان افغان مہاجرین کی جلد وطن واپسی پر بھی زور دیتا رہا ہے کیوں کہ ترجمان کے بقول اُن کی موجودگی دہشت گردوں کو افغان مہاجرین میں شامل ہونے میں مدد دیتی ہے۔
واضح رہے کہ امریکہ اور افغان حکومت کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ پاکستان میں افغان طالبان کے دھڑے حقانی نیٹ ورک کی پناہ گاہیں ہیں اور اُنھیں ختم کیا جانا چاہیے۔
اس بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کی محفوظ پناہ گاہوں کے الزامات زمینی حقائق کے برعکس ہیں۔
محمد فیصل نے بتایا کہ پاکستان نے افغانستان سے محلق اپنی سرحد کی نگرانی کو مؤثر بناتے ہوئے نہ صرف سرحدی چوکیاں قائم کی ہیں بلکہ باڑ بھی لگائی جا رہی ہے، جب کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دو لاکھ فوجی اہلکار بھی تعینات ہیں۔