قحط اور خشک سالی کے خطرے سے دوچار سات ممالک کو بچانے کے لیے اقوامِ متحدہ نے اپنے ایک ایمرجنسی فنڈ سے 100 ملین ڈالر بھیجے ہیں۔
انسانی ہمدردی سے متعلق امور کے لیے اقوامِ متحدہ کے سربراہ مارک لولاک کا اپنے ایک بیان میں کہنا تھا کہ قحط سے بچا جا سکتا ہے، لیکن اس کے لیے ہمیں وقت پر سرگرم ہونا پڑے گا۔ اقوام متحدہ کے سینٹرل ایمرجنسی ریلیف فنڈ سے ایک سو ملین ڈالر کی امداد اب تک کی سب سے بڑی رقم ہے۔
اقوام متحدہ کے ڈیٹا کے مطابق، کرونا وائرس سے پھیلنے والی عالمی وبا اپنے ساتھ سماجی اور معاشی نقصانات بھی لیکر آئی، تاہم اس سے پہلے ہی،55 ممالک میں 13 کروڑ اور 50 لاکھ لوگوں کو شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا تھا۔
اس سال اس تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور اقوام متحدہ نے افغانستان، برکینا فاسو، عوامی جمہوریہ کانگو، نائیجیریا، جنوبی سوڈان اور یمن میں موجود صورت حال پر خطرے کی نشاندہی کر دی تھی۔ ان چھ ممالک میں ایمرجنسی فنڈ کے 80 ملین ڈالر مختص ہونگے، جب کہ 20 ملین ڈالر ایتھوپیا کو دیے جائیں گے۔
لولاک نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کرونا وائرس کے مخفی پہلوؤں میں بھوک سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
انسانی ہمدردی اور فلاح کیلئے کام کرنے والوں کو خدشہ ہے کہ سن 2020 تنازعات، دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات اور پھر کرونا وائرس کے امتزاج سے ایک مشکل سال ہو گا۔
لولاک کا کہنا تھا کہ اگر کرونا وائرس کی وبا نہ پھیلتی تو دیگر مسائل کو قابو میں کیا جا سکتا تھا۔ انہوں نے امریکہ میں جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے مصدقہ مریضوں کی تعداد پانچ کروڑ اور 50 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے، اور کرونا وائرس نے اُن ممالک کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یمن میں لاکھوں لوگوں کی زندگی خطرے میں ہے کیونکہ اس ملک میں 24 ملین افراد کی زندگی کا انحصار انسانی ہمدردی کے تحت ملنے والی امداد پر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وجہ سے گزشتہ چھ ماہ سے اقوام متحدہ اور اس کے شراکت داروں کو راشن میں اور دیگر اہم پروگراموں میں کٹوتیاں کرنا پڑی ہیں۔
لولاک کا کہنا تھا کہ جن لاکھوں افراد کو پہلے ہر ماہ خوراک فراہم کی جاتی تھی، وہ اب روک دی گئی ہے، اور یہ لوگ اب اپنی بقا کی حد پر کھڑے ہیں۔