ایک ایرانی خبر رساں ادارے نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران میں آٹھ ماہ تک زیرِ حراست رہنے والے امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے ایک صحافی پر ’’جاسوسی‘‘ اور ’’قومی سلامتی کے خلاف کام کرنے‘‘ کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
اتوار کو ’فارس نیوز ایجنسی‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں اس خبر کے ماخذ کی وضاحت نہیں کی گئی تاہم یہ خبر رساں ادارہ ایران کے سخت گیر حلقوں کے قریب سمجھا جاتا ہے۔
ایرانی عہدیدار اس سے قبل کہہ چکے ہیں کہ جیسن رضائیاں کو ’’سلامتی‘‘ سے متعلق الزامات کا سامنا ہے اور ان کے خلاف انقلابی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا جو زیادہ تر قومی سلامتی سے متعلق حساس مقدمات کی سماعت کرتی ہے۔
جیسن کی وکیل لیلیٰ احسن نے اپنے موکل کے خلاف مخصوص الزامات پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا تاہم انہوں نے امریکی خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کو بتایا کہ انہوں نے فرد جرم کو پڑھ لیا ہے اور وہ آئندہ دنوں میں رضائیاں کے خاندان کو اس بارے میں آگاہ کریں گی۔ لیلیٰ نے مزید کہا کہ انہوں نے گزشتہ ماہ رضائیاں کے ساتھ جیل میں ملاقات کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ’’بظاہر ان کی صحت اچھی تھی اور ان کا حوصلہ بلند تھا۔ میں ان کے ساتھ کسی بھی وقت ملاقات کر سکتی ہوں۔ جیسن نے مجھے کہا کہ (مقدمہ کا) مضبوط دفاع کیا جائے۔ میں ان کی اہلیہ اور ان کے خاندان کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہوں۔ میں نے عدالت سے جتنی جلد ممکن ہو سکے مقدمے کی سماعت کی درخواست کی ہے۔"
رضائیاں کو ان کی اہلیہ یگانہ صالحی اور دو کیمرہ مینوں کے ساتھ 22 جولائی کو تہران میں حراست میں لیا گیا تھا۔ رضائیاں کے علاوہ باقی سب کو رہا کر دیا گیا تھا۔ رضائیاں کے پاس امریکہ اور ایران کی دُہری شہریت ہے تاہم ایران دُہری شہریت کو تسلیم نہیں کرتا۔ واشنگٹن پوسٹ، امریکی عہدیدار اور رضائیاں کا خاندان ان کی رہائی کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ جب رضائیاں کے بھائی علی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
فارس نیوز میں شائع ہونے والی رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ رضائیاں نے مبینہ طور پر ایران سے اقتصادی اور صنعتی معلومات حاصل کیں جو انہوں نے مبینہ طور پر ان امریکیوں کو فروخت کر دی جن کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے۔ رپورٹ میں مبینہ طور پر ان کا تعلق امریکہ میں رہنے والے ایرانی حکومت کے مخالف ایک صحافی امید میمارین سے بھی جوڑا گیا ہے۔