امریکہ نے افغانستان میں برسرِاقتدار طالبان حکام کے ساتھ لگ بھگ دو برس سے جاری سفارت کاری میں تعطل کے بعد اب اپنی افغان پالیسی پر نظرثانی شروع کردی ہے۔ امریکی حکام طالبان کی حکومت کو 'جابرانہ' قرار دیتے ہیں۔
یہ نظر ثانی ایسے وقت میں کی جا رہی ہے جب طالبان کی جانب سے خواتین کو اقوامِ متحدہ کے اداروں میں کام کرنے سے روکنے کے بعد اقوامِ متحدہ افغانستان میں اپنے آپریشنز کو مبینہ طور پر روکنے پر غور کر رہی ہے۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے ایک ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ " امریکی حکومت طالبان سے رابطہ کاری کے اپنے طریقۂ کار پر نظرثانی کر رہی ہے۔ یہ نظرثانی افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف طالبان کے بڑھتے ہوئے سخت اقدامات اور امتیازی سلوک کے تناظر میں کی جا رہی ہے۔"
طالبان خواتین کو تعلیم، ملازمت اور سیاسی جدوجہد سے محروم رکھنے کے اپنے فیصلے کو افغانستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہیں اور وہ اس ضمن میں بین الاقوامی مذمت اور مسلم اکثریتی ممالک کی تنقید کو نظر انداز کرتے آرہے ہیں۔
واشنگٹن کی جانب سے سخت بیانات ایسے موقع پر آ رہے ہیں جب اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس مئی میں مبینہ طور پر ایک اجلاس بلانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں جہاں وہ طالبان کی سخت گیر پالیسیوں کو ختم کرنے کے بدلے طالبان کو جنرل اسمبلی میں نشست دینے پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔
اس اجلاس سے متعلق جب اقوامِ متحدہ کے لیے روسی سفیر ویسیلی نبینزیا سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے طالبان ان شرائط کو تسلیم کریں گے۔
افغانستان کا لگ بھگ دو برس قبل کنٹرول سنبھالنے کے باوجود ابھی تک طالبان کی حکومت کو کسی بھی دوسرے ملک کی حکومت نے تسلیم نہیں کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ میں افغانستان کی نشست سابق افغان حکومت کے نمائندے نصیر احمد فائق کے پاس ہے۔
طالبان سے متعلق امریکہ کی بڑھتی بے چینی کے سبب واشنگٹن کے سفارت کاروں نے سابقہ افغان سیاست دانوں اور وار لارڈز سے رابطہ کاری بڑھائی ہے جنہوں نے اپنے سیاسی آفس ملک سے باہر قائم کر رکھے ہیں۔
رواں ہفتے افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی ٹام ویسٹ نے استنبول میں متعدد افغان رہنماؤں سے ملاقات کی ہے۔ انہوں نے ان ملاقاتوں کے دوران افغانستان پر طالبان کی حکومت سے متعلق گہری تشویش ظاہر کی۔
طالبان مخالف 'نیشنل ریزسٹینس کونسل فار سیلوشن آف افغانستان' نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس کے نمائندوں نے پیر کو ٹام ویسٹ کی درخواست پر ان سے ملاقات کی ۔ گروپ نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ انہوں نے "افغانستان کو حالیہ بحران" سے بچانے کے لیے ٹام ویسٹ کو ایک روڈ میپ فراہم کیا ہے۔
طالبان کی جانب سے کابل کے اقتدار پر قبضے کے بعد سے اب تک کسی امریکی اہلکار نے ملک کا دورہ نہیں کیا ہے۔ لیکن واشنگٹن نے طالبان کو نظر انداز کرتے ہوئے افغان شہریوں سے اپنے سفارتی اور انسانی امداد سے متعلق تعلقات بحال رکھے ہیں۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اس بارے میں امریکہ کو مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
ایک افغان مبصر عبید اللہ بحیر نے ٹوئٹ میں کہا کہ ان کے سوا کیوں باقی تمام سفیر افغانستان کا دورہ کر رہے ہیں یا وہاں رک رہے ہیں۔ ان کے بقول "میں جلاوطن اور ناکام جمہوریہ کے وارلاڈز اور سیاست دانوں سے ملاقاتوں کی منطق سمجھنے سے قاصر ہوں۔"
اگرچہ کسی بھی ملک نے طالبان حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا لیکن خطے کے اکثر ممالک جن میں روس، چین، ایران اور پاکستان شامل ہیں، نے کابل میں اپنے سفارت خانے کھول رکھے ہیں اور طالبان کے نمائندے ان ممالک کے دارالحکومتوں میں موجود ہیں۔
کینیڈا کے لیے افغانستان کی سابق سفیر شنکائی کاروخیل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اگر امریکی سفرا کابل کا دورہ بھی کریں گے تو انہیں درست زمینی حقائق تک رسائی حاصل نہیں ہوگی۔
ان کے بقول"طالبان ان کی عوامی نمائندوں یا عورتوں کے گروہوں ،سول سوسائٹی اور سیاسی کارکنوں کے ساتھ ملاقاتیں نہیں ہونے دیں گے۔"
واضح رہے کہ فروری 2020 میں امریکہ کے طالبان رہنماؤں کے ساتھ ہونے والے دوحہ معاہدے کےتحت امریکہ نے افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا عہد کیا تھا۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں طالبان کے خلاف عسکری مزاحمت کی حمایت نہیں کر رہے لیکن طالبان کو متنوع حکومت کے لیے اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے۔