رسائی کے لنکس

سمرقند کانفرنس سے مثبت نتائج کے حصول پر سوالیہ نشان ہے: تجزیہ کار


سمرقند میں ہونے والی کانفرنس کا ایک منظر۔ 13 اپریل 2023
سمرقند میں ہونے والی کانفرنس کا ایک منظر۔ 13 اپریل 2023

ازبکستان کے دارالحکومت سمرقند میں ہونے والی افغانستان کے پڑوسی ممالک کی چوتھی وزارتی کانفرنس میں شریک ممالک نے افغان قیادت پر ملک میں وسیع البنیاد حکومت کے قیام، افغان خواتین کے روزگار اور تعلیم حاصل کرنے سمیت اقلیتوں کے حقوق کو یقینی بنانے پر زور دیا ہے۔ پاکستان میں تجزیہ کاروں کے خیال میں ایسی کانفرنسوں کے مثبت اثرات تاحال سامنے نہیں آئے۔

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو افغانستان کے حوالے سے اس نوعیت کے کانفرنسوں میں کلیدی کردار ادا کرنا چاہئے، کیونکہ افغانستان میں کسی بھی تبدیلی کا براہ راست اثر پاکستان پر پڑتا ہے۔

سابق سفارت کار اور تجزیہ کار عبدالباسط کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان اپنے اندرونی سیاسی اور معاشی حالات کے پیش نظر افغان صورت حال پر زیادہ توجہ مرکوز نہیں رکھ سکا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ عموما اس نوعیت کے اجلاسوں کا مقصد طالبان پر دباؤ بڑھانا ہوتا ہے۔ اور کسی ایسی وسیع البنیاد حکومت کے بارے میں زور دیا جاتا ہےجس میں خواتین سمیت افغانستان کے تمام طبقات کی مناسب نمائندگی یقینی بنائی جائے ۔

عبدالباسط سمجھتے ہیں کہ اس صورت حال میں افغانستان پر مزید دباؤ ڈانے کی بجائے، وہاں کی روایات خصوصا پاکستان سے ملحق قبائل کے رسم و رواج کو مد نظر رکھتے ہوئے روایتی انداز سے طالبان کے ساتھ روابط مضبوط کیے جائیں۔ کیونکہ موجودہ صورت حال میں طالبان کسی وسیع البنیاد حکومت کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتے۔

اس نوعیت کی پہلی کانفرنس کا اہتمام پاکستان نے 2021 میں کیا تھا۔ جس کا مقصد علاقائی سطح پر افغانستان کی صورت حال کو اجاگر کرنا تھا۔ اس حوالے سے دوسری کانفرنس ایران میں جب کہ تیسری چین میں منعقد ہوئی تھی۔

عبدالباسط کہتے ہیں کہ تاحال ان کانفرنسز کے مثبت اثرات اس لیے سامنے نہیں آئے کیونکہ مختلف ممالک ایسے پلیٹ فارم پر اپنے اپنے گروپوں کو سپورٹ کر کے اپنے مفادات کے تحفظ پر زور دینے کی بات کرتے ہیں۔

اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان میں شدت پسند تنظیمیں اپنا دائرہ کار وسیع کر رہی ہیں۔

حال ہی میں وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں پاکستان کے وزیر دفاع، خواجہ محمد آصف نے کہا تھاکہ ٹی ٹی پی کے جنگجو افغان سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیں۔

حال ہی میں کالعدم تنظیم کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے پہلے تین مہینوں میں 117 حملوں کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے۔

عبدالباسط کا مزید کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ٹی ٹی پی جیسے معاملات، پاکستان کو دوحہ امن معاہدے سے قبل طالبان کے ساتھ اٹھانے چاہئے تھے۔ اب بھی پاکستان بارہا اس مسئلے کو طالبان کے ساتھ سفارتی سطح پر اٹھاتا رہا ہے لیکن وہ نہیں سمجھتے کہ ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو برارست طالبان کی حمائت حاصل ہو گی۔

تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ عالمی برادری کو چاہئے کہ طالبان کے ساتھ روابط استوار رکھیں کیونکہ انہیں تنہا کر کے کوئی مقصد حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے۔

افغان امور کے ماہر اور سینئر سحافی سمیع یوسفزئی سابق سفارت کار عبدالباسط کے خیالات سے اتفاق کرتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس نوعیت کی کانفرنسز میں جب مختلف حکومتوں کے نمائندے افغانستان میں بسنے والے جہادی گروپوں جیسے کہ داعش، ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ اور ٹی ٹی پی وغیرہ کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں تو طالبان کی جانب سے کسی ذمہ دار حکومت کی طرح کا رویہ اختیار نہیں کیا جاتا۔

سمیع یوسفزئی کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ روابط استوار کرنے کی حکمت عملی کے بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے ہیں کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ طالبان کی پالیسیاں مزید سخت ہوتی جا رہی ہیں۔

ان کے بقول پہلے سال انہوں نے خواتین کی تعلیم اور روزگار پر پابندی عائد کی۔ دوسرے سال خواتین کے یونیورسٹی جانے پر بھی پابندی عائد کردی جب کہ ابھی حال میں افغان خواتین کو اقوام متحدہ کے دفاتر میں بھی کام کرنے سے روک دیا ہے۔

سمیع یوسفزئی کے بقول اسی طرح ٹی ٹی پی کے تناظر میں پاکستان کے ساتھ بھی ڈیڈ لاک بڑھتا جا رہا ہے۔ ایسے میں وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اس قسم کی چھوٹی سطح پر منعقد کی جانے والی کانفرنسز ہمسایہ ممالک کے لیے مدد گار ثابت ہونگی۔

سمر قند کانفرنس میں ازبکستان، چین، ایران، پاکستان، روس، تاجکستان اور ترکمانستان کے وزارت خارجہ کے اہل کاروں نے شرکت کی۔

وزرا ئے خارجہ نے افغانستان سے دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ کے خطرات کا سامنا کرنے کی کوششوں کے لیے ہم آہنگی پیدا کرنےپر بھی زور دیا۔

یہ کانفرنس ایک ایسے موقع پر ہوئی جب افغانسان میں مخدوش معاشی صورت حال، بگڑتی ہوئی امن و امان کی صورت حال اور انسانی حقوق خاص طور پر خواتین کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔

گزشتہ ہفتے طالبان کی جانب سے خواتین پر اقوام متحدہ کے دفاتر میں کام کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ جس کی اقوام متحدہ کے سربراہ، ان کی نائب اور دوسرےاعلی عہدیداروں نے شدید مذمت کی تھی۔

XS
SM
MD
LG