رسائی کے لنکس

طالبان کا عالمی برادری پر اپنی حکومت تسلیم کرنے پر زور، امریکہ کا انکار


امریکہ نے اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام اجلاس کے دوران افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے متعلق کسی بھی قسم کی بات چیت کو مسترد کر دیا ہے۔

وائس آف امریکہ کےایاز گل کی رپورٹ کے مطابق قطر کے دارالحکومت دوحہ میں یکم اور دو مئی کو دنیا بھر کے ممالک کے سفرا کا اجلاس ہوگا جس کی میزبانی اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کریں گے۔

امریکہ کے ایک عہدیدار نے وائس آف امریکہ کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے اجلاس کا ہر گز مقصد طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اجلاس کے دوران طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے متعلق کوئی بھی گفتگو ناقابلِ قبول ہو گی۔

امریکہ کی جانب سے یہ ردِ عمل ایسے موقع پر آیا ہے جب اقوامِ متحدہ کی ڈپٹی سیکریٹری جنرل امینہ محمد نے قطر میں منعقد ہونے والے اجلاس کی تفصیلات شیئر کی تھیں اور بتایا تھا کہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنا بھی ایجنڈے میں شامل ہوگا۔

'اقوام متحدہ افغان عوام سے متعلق اپنی ذمے داریاں پوری کرے'

دریں اثنا طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ اقوامِ متحدہ کو افغان عوام سے متعلق اپنی ذمے داریاں پوری کرنا ہوں گی۔

جمعرات کو وائس آف امریکہ سے بذریعہ ٹیلی فون گفتگو کرتے ہوئے ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ طالبان حکومت چاہتی ہے کہ اسے تسلیم کرنے کا عمل جلداز جلد مکمل ہو جائے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اس سے طالبان حکومت اور دنیا کے دیگر ملکوں کے درمیان اعتماد بحال ہو گا جس سے لامحالہ نہ صرف مسائل حل ہوں گے بلکہ خطے کی سیکیورٹی اور استحکام پر مثبت اثر پڑے گا۔

تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ دوحہ میں ہونی والی اس کانفرنس سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کی جاسکتیں۔

وائس آف امریکہ کے نذرالاسلام کی رپورٹ کے مطابق افغان امور کے ماہر اور سینئر صحافی سمیع یوسف زئی کہتے ہیں کہہ اقوام متحدہ کی ڈپٹی سیکریٹری جنرل کے بیان سے ذرائع ابلاغ میں ایک سنسنی ضرور پھیل گئی ہے۔

لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ طالبان کبھی بھی سیاسی قوت نہیں رہے بلکہ وہ ہمیشہ سے ایک عسکری قوت ہی رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ انہیں اقتدار سنبھالے دو سال ہونے کو ہیں اور آج تک ان کی تمام پالیسیوں میں عسکری ذہنیت ہی سامنے آتی ہے۔

ان کے بقول یہی وجہ ہے کہ طالبان کو دنیا کے کسی بھی ملک نے رسمی طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔

سمیع یوسف زئی کہتے ہیں کہ وہ اس بابت عالمی برادری کو موردِ الزام نہیں ٹھہراتے کیوں کہ طالبان کی انسانی حقوق سے متعلق سخت پالیسیاں، خواتین کی تعلیم اور روزگار کی ممانعت جیسے اقدامات ان کی تسلیم میں بڑی رکاوٹ بن رہے ہیں۔

واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ کی ڈپٹی سیکریٹری جنرل امینہ محمد نے رواں ہفتے پرنسٹن اسکول آف پبلک اینڈ انٹرنیشنل افیئرز سے خطاب میں کہا تھا کہ طالبان کی عالمی سطح پر تسلیم ہونے کے خواہش عالمی برادری کے ساتھ رابطے کو ایک اہم موقع فراہم کرتی ہےجب کہ عالمی برادری کو طالبان پر خواتین کے حقوق سمیت دیگر معاملات منوانے میں اہم موقع فراہم کرتی ہے۔

دوسری جانب دوحہ میں قائم طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان محمد سہیل شاہین اس پیش رفت کو خوش آئند قرار دیتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ تاحال انہیں باضابطہ طور پر اس کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ نہیں ملا ہے۔ تاہم وہ اس پیش رفت سے آگاہ ضرور ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں سہیل شاہین نے بتایا کہ باضابطہ دعوت کے بعد ہی طے کیا جائے گا کہ طالبان کی جانب سے کون اس کانفرنس میں سربراہی کرے گا۔

دوحہ میں ہونے والی یہ کانفرنس ایک ایسے وقت میں منعقد ہو رہی ہے جب حالیہ دنوں میں طالبان نے خواتین پر اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے پر پابندی عائد کی ہے۔

اقوامِ متحدہ نے طالبان کے اس فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ خواتین پر پابندیوں سے ملک میں معاشی بدحالی میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔

افغانستان کے لیے امریکہ کے سابق نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد جنہوں نے امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ معاہدے میں اہم کردار ادا کیا تھا، کہتے ہیں کہ افغانستان کے موجودہ حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے دوحہ امن معاہدے پر عمل درآمد کے لیے ایک مکمل روڈ میپ کی ضرورت ہے۔

انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ اس روڈ میپ میں خواتین کی تعلیم اور روزگار کے حل جیسے مسائل پر بات ہونی چاہیے۔

کابل میں مقیم افغان صحافی اصغر مومند کا کہنا ہے کہ افغان عوام دوحہ میں ہونی والی اس کانفرنس کو نہایت سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ چوں کہ افغانستان کو تا حال عالمی سطح پر کسی نے بھی تسلیم نہیں کیا ہے اور اس کا براہ راست اثراس کی تجارت پر ہو رہا ہے۔ اس وجہ سے آئے روز معاشی بدحالی سامنے آرہی ہے اور لوگوں کی اقتصادی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اصغر مومند کا کہنا تھا کہ افغانستان کے تمام لیڈر اپنی پریس کانفرنسز میں کہتے ہیں کہ 2020 میں ہونے والے دوحہ امن معاہدے کی تمام شقیں طالبان نے پوری کر لی ہیں جس میں افغان سرزمین کا دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال نہ ہونا، دہشت گردوں کو پناہ نہ دینا شامل ہے۔

ان کے بقول اس کے بعد عالمی برادری کا طالبان کی حکومت کو تسلیم نہ کرنا بلا جواز ہے۔

XS
SM
MD
LG