افغانستان کے لیے امریکی امداد کے نگران ادارے نے قانون سازوں کو خبردار کیا کہ ملک کے لیے امریکی امداد کا رخ ممکنہ طور پر طالبان کی طرف موڑا جا سکتا ہے۔
افغانستان کی تعمیر نو کے خصوصی انسپکٹرجان سوپکو نے الزام لگایا کہ بائیڈن انتظامیہ نے اس سلسلے میں تحقیقات کی کوششوں کو روکا ہے۔
اپنے خدشات کا ظہار کرتے ہوئے سوپکو نے ہاؤس اوور سائیٹ کمیٹی کوایک سماعت کے دوران بتایا،’’بدقسمتی سے، آج جب میں یہاں بیٹھا ہوں، میں اس کمیٹی یا امریکی ٹیکس دہندگان کو یقین نہیں دلا سکتا کہ ہم فی الحال طالبان کو مالی امداد نہیں دے رہے ہیں‘‘۔
خصوصی انسپیکٹر نے مزید کہا، وہ یہ بھی یقین نہیں دلا سکتے کہ طالبان اس رقم کا رخ مطلوبہ وصول کنندگان یعنی افغانستان کے غریب عوام کی طرف کر رہے ہیں۔
سوپکو کا یہ حیرت انگیز انکشاف اس وقت سامنے آیا ہے جب ہاؤس ری پبلکن اپنی نئی اکثریت کا اختیار استعمال کرتے ہوئے بائیڈن انتظامیہ کو اگست 2021 میں امریکی انخلاء سے نمٹنے کے حوالے سے جوابدہ ٹھہرا رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے "ایسو سی ایٹڈ پریس" کے مطابق یہ انکشاف وائٹ ہاؤس کی جانب سے ملک کی طویل ترین جنگ کے خاتمے کے بارے میں امریکی پالیسیوں کے "ہاٹ واش" کے نتائج کا 12 صفحات پر مشتمل خلاصہ جاری کرنے کے ایک ہفتہ بعد سامنے آیا ہے۔
اے پی کے مطابق وائٹ ہاوس نے افغان جنگ کے اختتام کے بارے میں اپنے اقدامات کی بہت کم ذمہ داری قبول کی ہے اور اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ صدر جو بائیڈن سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلوں پیش نظر اس سلسلے میں "بہت زیادہ محدود" تھے۔
دوسری طرف ری پبلکنز نے بائیڈن کے افغانستان سے نمٹنے کو ایک "تباہ کن" اور "قیادت کی غیر معمولی ناکامی" قرار دیا ہے۔
انہوں نے محکمہ خارجہ اور پینٹاگان کی جانب سے کیے گئے جائزے اور کارروائی کے بعد کی رپورٹس کو متعصبانہ قرار دیا ہے۔
خیال رہے کہ وائٹ ہاؤس نے نجی طور پر یہ رپورٹس گزشتہ ہفتے کانگریس کو بھیجی تھیں اور انہیں انتہائی درجے کی خفیہ دستاویز قرار دیا ہے
جنہیں عوامی طور پر جاری نہیں کیا جائے گا۔
اس رپورٹ کی کچھ تفصیلات اے پی سے لی گئیں ہیں