رسائی کے لنکس

کنٹرول لائن کے قریب حملے میں پانچ بھارتی فوجی ہلاک


فائل فوٹو
فائل فوٹو

متنازع کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول کے قریب واقع مینڈھر علاقے میں مشتبہ عسکریت پسندوں کے ایک حملے میں پانچ بھارتی فوجی ہلاک اور ایک شدید زخمی ہو گیا ہے۔

جموں و کشمیر کے سرمائی صدر مقام جموں میں بھارتی فوج کے ایک ترجمان نے بتایا کہ یہ حملہ جمعرات کو سہ پیر 3 بجے کیا گیا اور اس میں پانچ سپاہی موقع پر مارے گئے جب کہ شدید زخمی اہل کار کو ڈاکٹر بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ حملے کے دوران اس فوجی گاڑی پر جس میں یہ سپاہی سوار تھے دستی بم پھینکے گئے اور غالبا" اسی وجہ سے اس میں آگ لگ گئی۔

ترجمان لیفنٹنٹ کرنل دیوندر آنند نے بتایا "جمعرات کو تین بجے کے قریب بھارتی فوج کی ایک گاڑی (حد بندی لائن کے قریب واقع) بھمبر گلی سے ضلع پونچھ کے سنگیوٹ نامی علاقے کی طرف جا رہی تھی کہ اس دوران دہشت گردوں نے علاقے میں جاری موسلا دھار بارش اور کم روشنی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس پر فائرنگ کی۔ممکنہ طور پر دہشت گردوں کی طرف سے دستی بموں کے استعمال کے نتیجے میں گاڑی میں آگ لگ گئی۔


ترجمان کے مطابق بھارتی فوج کی راشٹریہ رائفلز یونٹ سے وابستہ سپاہی جو علاقے میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشنز کے لیے تعینات تھے اس حملے میں ہلاک اورزخمی ہوئے۔

ابتدائی ا طلاعات میں کہا گیا تھا کہ فوجی گاڑی میں آگ آسمانی بجلی گرنے سے لگی تھی۔ فوجی ذرائع کے مطابق بھارتی فوج کی 49 راشٹریہ رائفلز کے پانچ سپاہیوں کی ادھ جلی لاشیں گاڑی کے تباہ شدہ ڈھانچے سے ملی ہیں۔

بھارتی فوج کے ترجمان نےکہا کہ اس واقعے کے بارے میں مزید معلومات حاصل کی جارہی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق بھارتی فوج نے جسے اسپیشل آپریشنز گروپ ( ایس او جی) کی اعانت حاصل ہے، حملہ آوروں کی تلاش کے لیے علاقے میں وسیع پیمانے پر کارروائی شروع کردی ہے ۔

بھارتی فوجی گاڑی پر یہ حملہ ایک ایسے دن ہوا ہے جب اسلام آباد میں حکام نے وائس آف امریکہ کی اس خبر کی تصدیق کی ہے کہ وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری شنگھائی تعاون (ایس سی او) کے وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت کے لیےاگلے ماہ بھارت جائیں گے۔


یہ اجلاس چاراور پانچ مئی کو بھارت کے ساحلی شہر گوا میں ہورہا ہے۔

واضح رہے پونچھ اور راجوری کے سرحدی اضلاع میں علیحدگی پسند عسسکریت پسندوں کی سرگرمیوں میں حالیہ مہینوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کے بعد بھارتی فوج اور دوسری سیکیورٹی فورسز نے اس علاقے میں انسداد کے کئی اقدامات کیے ہیں۔ ان دونوں اضلاع کی سرحدیں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے ملتی ہیں۔

ان اقدامات میں گزشتہ ساڑھے تین ماہ کے دوران راجوری اور پونچھ کے 1400 سےزیادہ شہریوں کو اسلحہ استعمال کرنے کی تربیت دینا اور ان میں کم از کم 115 جدید ہلکے ہتھیار اور کافی مقدار میں گولہ بارود تقسیم کرنا بھی شامل ہیں۔

شہریوں کو مسلح کرنے اور انہیں اسے استعمال کرنے کی تربیت دینے کا یہ سلسلہ رواں برس کے آغاز پر مشتبہ عسکریت پسندوں کی طرف سے راجوری کے ایک گاؤں اَپر ڈانگری پر ایک حملے کے بعد شروع کیا گیا تھا۔ اس حملے میں سات ہندو شہری جن میں دو کمسن بچے بھی شامل تھے ہلاک اور نصف درجن شہری زخمی ہوئے تھے۔

حملہ آوروں کو سیکیورٹی فورسز کی طرف سے علاقے میں کئی ہفتے تک جاری رہنے والے کومبنگ آپریشنز یا تلاشی کارروائیوں کے باوجود نہیں پکڑا جاسکا ہے۔


اس واقعے کے بعد پونچھ اور راجوری میں بھارت کی وفاقی پولیس فورس سی آرپی ایف کی 19 کمپنیوں (تقریبا" 21 سو اہل کاروں) پر مشتمل کمک اب بھی تعینات ہے۔

شہریوں کو سی آر پی ایف ہی اسلحہ استعمال کرنے کی تربیت دے رہا ہے۔ جب کہ جموں و کشمیر پولیس نے تربیت یافتہ افراد میں خود کار بندوقیں اور گولہ بارود تقسیم کیا ہے ۔

جن 1400 شہریوں کو اسلحہ استعمال کرنے کی تربیت دی گئی ہے وہ حال ہی میں تشکیل دئے گئے ولیج ڈیفنس گروپس (وی ڈی جیز) یا دیہات دفاعی گروہوں کے اکن ہیں۔


راجوری ضلع کےصدر مقام سے آٹھ کلو میٹر دوری پر واقع اَپر ڈانگری میں یکم جنوری کی شام کو مشتبہ عسکریت پسندوں کی فائرنگ میں چار ہندو شہری ہلاک اور دو عورتوں سمیت چھ دوسرے افراد زخمی ہوئے تھے۔ اس کے اگلے روز ہدف بنائے گئے تین نجی گھروں میں سے ایک میں ایک بوری میں رکھے گئے باروی موادکے پھٹنے سے دو کمسن بچے ہلاک اور پانچ شہری زخمی ہوئے تھے۔ زخمیوں میں شامل ایک نو عمر لڑکی بعد میں اسپتال میں چل بسی تھی۔

اس واقعے کے چند دن بعد نئی دہلی میں وزارتِ داخلہ کے اعلیٰ افسران کے ایک اجلاس میں پونچھ اور راجوری سمیت جموں و کشمیر کے اُن علاقوں میں جہاں عہدہ داروں کے مطابق شہریوں بالخصوص اقلیتی ہندو فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو عسکریت پسندوں کی طرف سے ہدف بنانے کا احتمال ہے گاؤں دفاعی گروپس دوبارہ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کا باضابطہ اعلان بھارت کے وزیرِ داخلہ امیت شاہ نے 13 جنوری کو جموں کے اپنے دورے میں کیا تھا۔

حزبِ اختلاف کی جماعتوں اور قائدین نے گاؤں دفاعی کمیٹیوں کے احیا ء کی مخالفت کی تھی اور وہ اب بھی اس پر اصرار کر رہےہیں کہ حکومت کا یہ فیصلہ جموں و کشمیر میں تشدد کو کم کرنے کی بجائے اسے بڑھاوا دینے کا سبب بن سکتا ہے بلکہ اس سے خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہونے کا بھی احتمال ہے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG