واشنگٹن —
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے جمعےکو واشنگٹن میں اپنےروسی ہم منصب، سرگئی لاوروف؛ اور امریکی اور روسی دفاعی سربراہان کے ساتھ ملاقات کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ بات چیت کی اہمیت دونوں ملکوں تک محدود نہیں، بلکہ ’نااتفاقی کے لمحوں‘ سے کہیں بالا تر ہے۔
محکمہٴخارجہ میں اپنے خطاب میں، کیری نے کہا کہ امریکہ روس تعلقات کی بنیاد مشترکہ مفادات، تو کبھی تضاد اور نااتفاقی کی صورت والے مفادات کی روداد ہے۔ اور، ایسا نہیں ہے کہ یہ نااتفاقی محض امریکی انٹیلی جنس کے سابق اہل کار، ایڈورڈ سنوڈن کے معاملے کے باعث ہے۔
اُن کے بقول،’میرا خیال ہے، اِس معاملے پر، اب ہماری سوچ بالکل واضح ہے۔ سرگئی لاوروف اور میں ہاکی کے پرانے کھلاڑی ہیں۔ اور، ہم دونوں بخوبی جانتے ہیں کہ ہاکی کی طرح، سفارت کاری بھی، کبھی کبھار، ٹکراؤ کی شکل اختیار کرتی ہے‘۔
کیری نے کہا کہ امریکی اور روسی عہدے دار اُن معاملات پر ’صاف گوئی‘ سے کام لے رہے ہیں، جِن پر اُن میں اختلافِ رائے ہے۔
لیکن، اُنھوں نے اِس بات پر زور دیا کہ دونوں ملکوں کے لیے یہ بات اہم ہے کہ وہ میزائل شکن نظام اور دیگر اسٹریٹجک معاملات پر پیش رفت کے حصول کے طریقے تلاش کریں، جِن میں افغانستان، ایران، شمالی کوریا اور شام شامل ہیں۔
لاوروف نے کہا کہ بحران کے تصفیئے کی شرائط کے اعتبار سے شام کا تنازع دونوں ممالک کی ’اولین ترجیح‘ ہے، ایسے میں جب دونوں ممالک ایک بین الاقوامی امن کانفرنس کے انعقاد اور مذاکرات کے ذریعے لڑائی کا سیاسی حل تلاش کرنے کی کوششوں کے حامی ہیں۔
یہ بات چیت ایسے وقت ہو رہی ہے، جب امریکہ اور روس کے مابین تعلقات نچلی ترین سطح پر ہیں، جس سے دو ہی روز قبل صدر براک اوباما نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ اگلے ماہ ماسکو میں ہونے والے سربراہ اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
امریکہ روس کے ساتھ خاص طور پر اِس لیے برہم ہے کہ روس نے سنوڈن کو سیاسی پناہ دینے کا فیصلہ کیا ہے؛ اور، سابق امریکی انٹیلی جنس کے اہل کار کو امریکہ میں جاسوسی کے الزامات کا سامنا کرنے کے لیے امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کیا ہے۔
محکمہٴخارجہ میں اپنے خطاب میں، کیری نے کہا کہ امریکہ روس تعلقات کی بنیاد مشترکہ مفادات، تو کبھی تضاد اور نااتفاقی کی صورت والے مفادات کی روداد ہے۔ اور، ایسا نہیں ہے کہ یہ نااتفاقی محض امریکی انٹیلی جنس کے سابق اہل کار، ایڈورڈ سنوڈن کے معاملے کے باعث ہے۔
اُن کے بقول،’میرا خیال ہے، اِس معاملے پر، اب ہماری سوچ بالکل واضح ہے۔ سرگئی لاوروف اور میں ہاکی کے پرانے کھلاڑی ہیں۔ اور، ہم دونوں بخوبی جانتے ہیں کہ ہاکی کی طرح، سفارت کاری بھی، کبھی کبھار، ٹکراؤ کی شکل اختیار کرتی ہے‘۔
کیری نے کہا کہ امریکی اور روسی عہدے دار اُن معاملات پر ’صاف گوئی‘ سے کام لے رہے ہیں، جِن پر اُن میں اختلافِ رائے ہے۔
لیکن، اُنھوں نے اِس بات پر زور دیا کہ دونوں ملکوں کے لیے یہ بات اہم ہے کہ وہ میزائل شکن نظام اور دیگر اسٹریٹجک معاملات پر پیش رفت کے حصول کے طریقے تلاش کریں، جِن میں افغانستان، ایران، شمالی کوریا اور شام شامل ہیں۔
لاوروف نے کہا کہ بحران کے تصفیئے کی شرائط کے اعتبار سے شام کا تنازع دونوں ممالک کی ’اولین ترجیح‘ ہے، ایسے میں جب دونوں ممالک ایک بین الاقوامی امن کانفرنس کے انعقاد اور مذاکرات کے ذریعے لڑائی کا سیاسی حل تلاش کرنے کی کوششوں کے حامی ہیں۔
یہ بات چیت ایسے وقت ہو رہی ہے، جب امریکہ اور روس کے مابین تعلقات نچلی ترین سطح پر ہیں، جس سے دو ہی روز قبل صدر براک اوباما نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ اگلے ماہ ماسکو میں ہونے والے سربراہ اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
امریکہ روس کے ساتھ خاص طور پر اِس لیے برہم ہے کہ روس نے سنوڈن کو سیاسی پناہ دینے کا فیصلہ کیا ہے؛ اور، سابق امریکی انٹیلی جنس کے اہل کار کو امریکہ میں جاسوسی کے الزامات کا سامنا کرنے کے لیے امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کیا ہے۔