وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ فی الوقت حتمی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وفاقی ادارے پر بڑے پیمانے پر سائبر حملے میں چین کے ہیکرز ملوث تھے۔ یہ امریکی وفاقی ادارہ ’بیک گراؤنڈ‘ سے متعلق اطلاعات اکٹھے کرنے کے کام پر مامور ہے اور ہزاروں سرکاری ملازمین کی ’سکیورٹی کلیرنس‘ جاری کرنے کے فرائض انجام دیتا ہے۔
ترجمان، جوش ارنیسٹ نے جمعے کے روز کہا کہ ’ایف بی آئی‘ سلامتی کی اس خلاف ورزی کے بارے میں تفتیش کر رہی ہے۔ اُنھوں نے اِس بات کی جانب دھیان مبذول کرایا کہ کسی کو ذمہ دار ٹھہرانے سےپہلے ابھی بہت سا کام ہونا باقی ہے۔
اس سے قبل، قانون کا نفاذ کرنے والے امریکی اہل کاروں کا کہنا تھا کہ چین کے ہیکرز نے، جو ممکنہ طور پر حکومت چین سے منسلک ہیں، وہی حملے کے پیچھے کارفرما ہیں، حالانکہ اُنھوں نے تفصیل نہیں بتائی کہ وہ کس طرح اس نتیجے پر پہنچے۔
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان، ہونگ لائی نے جمعے کے روز اِن الزامات کو ’غیرذمہ دارانہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’عام طور پر اس قسم کے حملے نامعلوم اور سرحدوں سے بالاتر ہوتے ہیں، اور اُن کے اصل ذرائع کو ڈھونڈنا مشکل معاملہ ہوتا ہے‘۔
’آفس آف پرسونیل منیجمنٹ‘ (او پی ایم) نے جمعرات کو بتایا کہ عین ممکن ہے کہ ڈیٹا کی اِس چوری سے 40 لاکھ کے لگ بھگ موجودہ اور سابق وفاقی ملازمین متاثر ہوئے ہوں، جسے معاملے کو کئی برسوں کے دوران حکومتی اہل کاروں کے ڈیٹا کی سب سے بڑی ہیکنگ قرار دیا گیا ہے۔
واشنگٹن میں چین کے سفارت خانے کے ترجمان، زہو ہائیقوان نے اِس بات پر زور دیا کہ چین نے ہیکنگ پر پابندی لگا رکھی ہے۔ بقول اُن کے، فوری نتائج اخذ کرنا اور مفروضے کی بنا پر الزام لگانا ’غیرذمہ دارانہ اور نقصان دہ‘ ہے۔
بوب پرٹ چارڈ ’رائل یونائٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ‘ میں سائبر سکیورٹی کے اسپیشلسٹ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چینی سرکار سے وابستہ ہیکرز کے لیے حکومتی ملازمین کی ذاتی معلومات کو ہدف بنانا کچھ غیرمعمولی حرفت معلوم ہوتی ہے۔