امریکہ میں جنوبی ایشیائی امور کے معروف ترین ماہرین میں شامل اسٹیفن کوہن اتوار کے روز 83 برس کی عمر میں چل بسے۔
’وائس آف امریکہ‘ کے قارئین، ناظرین اور سامعین کئی برس سے جنوبی ایشیائی امور کے مختلف پہلوؤں پر اسٹیفن کوہن کے بے لاگ اور ماہرانہ تبصروں سے مستفید ہوتے آئے ہیں۔ وہ خاص طور پر پاکستان اور بھارت کے سیکیورٹی اور دفاعی امور پر تحقیق کے حوالے سے شہرت رکھتے تھے۔
واشنگٹن کے معروف تھنک ٹینک، ’اٹلانٹک کونسل‘ سے وابستہ محقق اور شعبہ جنوبی ایشیا کے سابق ڈائریکٹر شجاع نواز نے ’وائس آف امریکہ‘ سے خصوصی گفتگو میں کہا ہے کہ ’’سٹیفن کوہن حقیقی معنوں میں ایک دانشور اور مشفق انسان تھے اور ان جیسا دانشور پیدا ہونے میں عرصہ لگے گا‘‘۔
انہوں نے سٹیفن کوہن کے ساتھ اپنے ذاتی اور پیشہ ورانہ تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب کوہن نے بھارتی مسلح افواج کے بارے میں کتاب لکھی تو پاکستان کے سابق فوجی حکمران ضیاءالحق نے انہیں مدعو کر کے پاکستانی مسلح افواج کے بارے میں بھی ویسی ہی کتاب لکھنے کی دعوت دی، جو انہوں نے قبول کر لی۔ یہ کتاب لکھنے کیلئے انہوں نے پاکستان کے تمام عسکری تربیتی اداروں اور دیگر مقامات کا تفصیلی دورہ کیا اور پھر انہوں نے ’پاکستانی فوج‘ کے عنوان سے کتاب لکھی جو 1998 میں شائع ہوئی۔
شجاع نواز کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے بھی پاکستان کی مسلح افواج پر کتاب لکھی تو سٹیفن کوہن نے انہیں بہت سپورٹ کیا۔
شجاع نواز نے بتایا کہ اٹلانٹک کونسل میں انہوں نے سٹیفن کوہن کے ساتھ مل کر انسداد دہشت گردی کے بارے میں ایک پراجیکٹ کیا جس کا پاکستانی فوج کو بہت فائدہ ہوا۔
انہوں نے کہا کہ سٹیفن کوہن کے انتقال سے پاکستان امریکہ میں ایک حقیقی تجزیہ کار اور دانشور سے محروم ہو گیا ہے، جو پاکستان کے حالات اور تاریخ پر گہری نظر رکھتے تھے۔
شجاع نواز سے وی او اے کی گفتگو سننے کیلئے اس لنک پر کلک کریں:
جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں سیکیورٹی امور کی پروفیسر کرسٹین فیئر نے ایک ٹوئٹ میں اسٹیفن کوہن کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا کہ ’’جنوبی ایشیا کے دفاعی امور کی تدریس کا آغاز کرنے والے اسٹیفن کوہن کا انتقال ہو گیا ہے۔ ہم سب جو اسی شعبے میں کام کرتے ہیں، ہمارا کیرئر بنانے میں ان کی مدد شامل تھی۔"
پروفیسر کرسٹین نے مزید کہا کہ جنوبی ایشیاکی سیکورٹی کا شعبہ تدریس حقیقت میں اسٹیفن کوہن نے ہی قائم کیا۔ وہ ایک دوست اور استاد تھے۔ ان کے جانے سے ایک اور شمع بجھ گئی ہے۔
امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے لکھا کہ ’’اسٹیفن کوہن ایک مشفق دوست، دانشور اور استاد تھے جن کی گزشتہ پانچ دہائیوں سے جنوبی ایشیائی امور پر گہری نظر تھی۔ وہ اپنے تبصروں میں ہمیشہ غیر جانبدار اور فکر انگیز تھے۔‘‘
بھارت کے ممتاز سیاستدان اور کالم نگار سودھیندرا کلکرنی نے ٹوئٹ کیا ’’میں افسردہ ہوں کہ بھارت اور پاکستان کے بارے میں عظیم امریکی دانشور اب نہیں رہے۔ انہوں نے اپنی کتاب Shooting for a Century میں اس حقیقی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ہمارے دونوں ملک 2047 سے بہت پہلے اپنی دشمنی ختم کر دیں گے جب یہ اپنی آزادی کے سو سال منا رہے ہوں گے۔‘‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما، فرحت اللہ بابر کا کہنا ہے کہ ’’انتہائی قابل احترام دانشور اسٹیفن کوہن کا انتقال افسوسناک سانحہ ہے۔ ان کا تجزیہ حقائق پر مبنی ہوتا تھا۔‘‘
اسٹیفن کوہن امریکہ کی یونیورسٹی آف شکاگو سے ایم اے اور یونیورسٹی آف وسکانسن سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد یونیورسٹی آف الینوئے میں تاریخ اور سیاست کے استاد رہے۔ وہ امریکی محکمہ خارجہ کے پالیسی پلاننگ سٹاف کا بھی دو سال تک حصہ رہے ۔ جس کے بعد انہوں نے جارج ٹاون یونیورسٹی میں ایڈجنکٹ پروفیسر کے طور پر کام کیا۔ پچھلے اکیس سال سے وہ واشنگٹن کے معروف تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوشن سے سینئیر محقق کے طور پر وابستہ تھے۔
بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے موجودہ سربراہ جان ایلن نے کوہن کے انتقال پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا،'سٹیو امریکہ، بھارت اور کئی دوسرے ملکوں میں پالیسی سپیشلسٹس اور اساتذہ کی کئی نسلوں کے لئے استاد، مینٹور،اور کولیگ تھے ۔ بروکنگز انسٹی ٹیوشن ان کی کمی عرصے تک محسوس کرے گا'۔
بروکنگز کے ایک ممتاز سکالر سٹروب ٹالبوٹ نے کہا کہ سٹیو کی کامیابیوں کی فہرست طویل ہے ۔ ایک سکالر، استاد،امریکی محکمہ خارجہ کا پالیسی ساز اور جنوبی ایشیا میں کئی ایسے دوستوں کا 'گرو'،جو انہیں بےحد پسند کرتے تھے ۔
اسٹیفن کوہن جنوبی ایشیائی سیکورٹی امور کے بارے میں ایک درجن سے زائد کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ ان میں (Shooting for a Century: The India-Pakistan Conundrum (2013 اور The Future of Pakistan (2011) بھی شامل تھیں۔
اس کے علاوہ وہ بھارت کی خارجہ پالیسی کے بارے میں 1978 میں India: Emerging Power کے عنوان سے ایک کتاب کے شریک مصنف تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ کتاب اس وقت لکھی گئی جب چین اور جاپان کے ماہرین بھارت کو اہم ملک نہیں سمجھتے تھے۔
بروکنگز انسٹی ٹیوٹ نے 2016 میں جنوبی ایشیا کے بارے میں ان کی تمام تصانیف اکٹھی کر کے South Asia Papers – A Critical Anthology of Writings کے نام سے شائع کیں۔