امریکی سپریم کورٹ اپنے ایک حالیہ فیصلے میں قرار دیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں فٹ بال کوچ کا کھیل کے بعد میدان میں دعا کرانا غیر آئینی نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کے نو رکنی بینچ کے چھ قدامت پسند ججوں نے فیصلے کی تائید کی جب کہ تین لبرل ججوں نے اس کے خلاف رائے دی۔ اعلیٰ عدلیہ کے اس فیصلے پر ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے پبلک اسکولوں میں 'زبردستی دعا' کرانے کا رجحان جنم لے سکتا ہے۔
امریکی آئین ریاست اور مذہب کو علیحدہ رکھنے پر زور دیتا ہے۔ انیس سو باسٹھ میں عدالت عظمیٰ کے ایک فیصلے کے بعد سے سرکاری اسکولوں میں عملے کی جانب سے منظم طریقے سے دعا کرانے پر پابندی ہے۔ طالب علم مل کر دعا کر سکتے ہیں لیکن کسی کو ساتھ ملنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔
حالیہ مقدمے میں ججوں کے سامنے یہ سوال تھا کہ اساتذہ اور کوچز کو حاصل مذہبی اور اظہار کی آزادی کے حق اور طلبا کو حاصل یہ حق کہ وہ مذہبی طور پر کوئی دباؤ نہ محسوس کریں، اس کے درمیان توازن کیسے قائم رکھا جائے۔
پیر کے روز اہم فیصلے میں بنچ کے لبرل ججوں کا کہنا تھا کہ ہائی سکول کے کوچ جوزف کینیڈی نے جب فٹبال کے میدان میں دعا کرائی تو اس سے بچوں پر دباؤ پڑا۔ اور اس سے کوچ کو یہ موقع ملا کہ وہ "اپنے ذاتی عقائد کو سکول کی تقریب" کا حصہ بنائیں۔ جسٹس سونیا سوٹومایور نے اختلافی نوٹ میں لکھا " کہ یہ ہمیں ایک خطرناک راستے پر ڈال دیتا ہے جہاں ریاستوں کو مذہبی معاملات میں الجھنا پڑے گا"۔
لیکن اکثریتی فیصلے میں ججوں نے زور دنیا کہ کوچ نے دعا میچ ختم ہونے کے بعد کرائی، جس وقت ان پر بچوں کی ذمہ داری نہیں تھی اور کوچ اس وقت کچھ بھی کر سکتے تھے۔ جسٹس نیل گورسچ نے اکثریتی فیصلے میں لکھا کہ، "آئین اور ہماری اقدار مذہبی اور غیر مذہبی نظریات کے لیے باہمی احترام اور برداشت تجویز کرتی ہیں، نہ کہ انہیں سنسر کرنے اور دبانے کی" ۔
انہوں نے مزید لکھا کہ ہر وہ چیز جو سرکاری سکول کے اساتذہ اور کوچ کہیں یا کریں، اسے حکومتی کنٹرول کے تابع لانا بھی درست نہیں ہوگا۔ اگر ایسا ہو تو ایک سکول کسی مسلمان ٹیچر کو حجاب پہننے پر ملازمت سے فارغ کر سکتا ہے یا کسی مسیحی کو کھانے سے پہلے خاموشی سے دعا کرنے سے روک سکتا ہے۔
فیصلے کے اختتامی جملوں میں جسٹس گورسچ نے لکھا کہ، "مذہبی اظہار کے لیے احترام ایک آزاد اور متنوع معاشرے کے لیے ناگزیر ہے۔ خواہ وہ کسی دینی ادارے میں ہو یا کھیل کے میدان میں، الفاظ کی شکل میں یا جھکے ہوئے سر کی صورت میں۔"
مگر اختلافی نوٹ میں جسٹس سونیا سوٹومایور کا کہنا تھا کہ، کھلاڑی جانتے ہیں کہ کوچ کی پسندیدگی حاصل کرنے کے بہت سے چھوٹے بڑے فائدے ہو سکتے ہیں، کھیل کے لیے اضافی وقت ملنے سے لے کر کالج میں کھلاڑی کے طور پر داخلہ لینے میں مدد تک۔ انہوں نے کہا کہ کچھ طالب علموں نے بتایا کہ انہوں نے دعا میں کوچ کینیڈی کا ساتھ دیا کیونکہ انہیں سوشل پریشر (دوسروں کے ساتھ مل کر چلنے کا دباؤ) محسوس ہوا۔
مقدمے کے مرکزی کردار کوچ جوزف کینیڈی نے اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ سن دو ہزار آٹھ میں جوزف نے سکول میں فٹبال میچ کے بعد میدان میں اکیلے گھٹنا ٹیک کر دعا کرنا شروع کی تھی۔ کچھ عرصے بعد بچے ان کے ساتھ اس میں شامل ہونے لگے اور کوچ مختصر خطبہ دینے لگے۔ دو ہزار پندرہ میں حکام نے انہیں اس خدشے کے تحت منع کیا کہ وہ سکولوں میں منظم دعا پر پابندی کے اصول کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو سکتے ہیں۔
امریکی سپریم کورٹ ان دنوں کئی اہم مقدمات کے فیصلے جاری کر رہی ہے۔حال ہی میں عدالت عظمیٰ نے اسقاط حمل کو نصف صدی سے حاصل آئینی تحفظ ختم کر دیا۔