امریکہ کی سپریم کورٹ نے جمعے کو ایک فیصلہ دیا تھا کہ اسقاطِ حمل کا کوئی آئینی حق نہیں ہے۔ اس نے پورے امریکہ میں جذبات کا سونامی پیدا کر دیا ہے۔ قدامت پسندوں نے ایک طویل عرصے سے طے شدہ مقصد کے حصول کا جشن منایا، جب کہ اسقاطِ حمل کے حقوق کے حامیوں نے متنبہ کیا کہ امریکہ کی لاکھوں خواتین کو اب صحت کی بنیادی سہولیات کے حصول کے لیے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے پر عدالت کے باہر موجود بعض افراد نے خوشی کا اظہار کیا، نعرے لگائے جب کہ بعض نا امید بھی ہوئے۔ امریکہ میں یہ بحث بھی ہو رہی ہے کہ عدالتی فیصلے کے بعد کئی ریاستوں میں اسقاطِ حمل کا حق ختم یا محدود کر دیا جائے گا۔ ملک کی اعلیٰ عدالت نے 1973 میں روے بنام ویڈ کیس کے فیصلے کے ذریعے تقریباً 50 سال تک یہ حق محفوظ رکھا تھا۔ اب امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ 50 ریاستوں میں سے لگ بھگ نصف میں اس حق کو ختم یا محدود کیا جا سکتا ہے۔
خواتین کی صحت بارے میں تحقیق کرنے والے ادارے ’گٹماچر انسٹیٹیوٹ‘ کے مطابق امریکہ کی 26 ریاستیں ممکنہ طور پر اسقاطِ حمل پر پابندی لگا سکتی ہیں۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ امریکہ کی بعض ریاستوں میں اسقاطِ حمل پر پابندی کے اقدامات کیے جائیں گے اور اسقاطِ حمل کرنے والے شعبہ طب کے پیشہ ور افراد کے خلاف ایسا کرنے پر مجرمانہ قانونی چارہ جوئی کی جائے گی جب کہ اسقاطِ حمل کرانے والی خواتین کے خلاف فوجداری مقدمہ کا اقدام بھی ہو سکتا ہے۔
سپریم کورٹ کے تاریخ ساز فیصلے پر امریکی معاشر ے کی رائےمنقسم
قانونی امور سے متعلق ادارے ’نیشنل ویمنز لا سینٹر‘ میں اسقاطِ حمل تک رسائی کی ڈائریکٹر ہیدر شماکر کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا ہے کہ یہ واقعی ایک ظلم ہے۔
انہوں نے کہا کہ خواتین ہر بہتر صحت کے لیے اسقاطِ حمل کی تلاش میں ہیں۔ انہیں دیکھ بھال کے لیے خاندان۔ دوستوں اور قابل اعتماد شراکت داروں کی مدد کی ضرورت ہے اور عدالت کے فیصلے سے بنیادی طور پر ان سب کے لیے مشکلات پیدا ہو گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کلینک بند ہونے جا رہے ہیں۔ جو لوگ اسقاطِ حمل کرانے میں مدد کرتے ہیں، انہیں قانونی چارہ جوئی کی دھمکیاں دی جا سکتی ہیں۔
اس کے برعکس ’امریکنز یونائیٹڈ فار لائف‘ کے جنرل کونسلر اسٹیون ایڈن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جب فیصلے کا اعلان کیا گیا تو انہیں خوشگوار حیرت ہوئی اور اسقاطِ حمل کے حقوق کے حامیوں سے کہا کہ وہ اس فیصلے کو دل و جان قبول کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ میں لوگ پہچانیں کہ اسقاطِ حمل اصل میں کیا ہے اور یہ خواتین اور ان کے رحم میں موجود زندگی کے لیے کیا کرتا ہے؟ امریکہ رحم میں بچوں کو مارنے کے حق پر منقسم نہیں ہوگا۔
خواتین کو مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا
امریکن یونیورسٹی کے ماہر عمرانیات پروفیسر ٹریسی اے ویٹز نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ وہ خواتین جو اسقاطِ حمل چاہتی ہیں، انہیں آئندہ پانچ برس میں بڑے پیمانے پر منفی نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔
ویٹز نے کہا کہ یہ مسائل غریب امریکیوں کو سب سے زیادہ متاثر کریں گے جب کہ امیر امریکی اسقاطِ حمل کی خدمات تک رسائی کے لیے سفر کر سکیں گے۔
واضح رہے کہ امریکہ میں کئی ریاستوں کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہاں خواتین کو اسقاطِ حمل کے حقوق حاصل ہوں گے۔
مبصرین کے مطابق امریکی عوام اس فیصلے کے بارے میں واضح طور دو متضاد رائے رکھتی ہے۔ ایک تو وہ ہیں جنہوں نے اس فیصلے کا جشن منایا۔ کچھ مخالفت میں اس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور بیانات دے رہے ہیں۔
امریکہ میں اسقاطِ حمل کے خاتمے کے حوالے سے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’سوسن بی انتھونی پرو-لائف امریکہ‘ کی صدر مارجوری ڈینن فیلسر کہتی ہیں کہ آئندہ چند برس میں کئی ریاستوں میں اسقاطِ حمل کی ہولناکی کو محدود کرکے لاکھوں جانیں بچانے کا موقع ہو گا۔
ڈینن فیلسر نے حاملہ خواتین اور ان کے خاندانوں کے لیے ’زندگی کے حامی حفاظتی حصار‘ کو وسعت دینے کا بھی مطالبہ کیا۔
جماعتی بنیاد پر منقسم رد عمل
دوسری طرف سیاسی محاذ پر امریکہ کی دونوں بڑی جماعتیں اس کے حق یا مخالفت میں کھل کر بیان دے رہی ہیں۔ بیشتر ری پبلکن رہنماؤں نے فیصلے کی حمایت کی ہے جب کہ ڈیموکریٹس اس فیصلے کی مخالفت کر رہے ہیں۔
صدر جو بائیڈن نے اس فیصلے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے عوام سے وہ آئینی حق چھین لیا جسے وہ پہلے تسلیم کر چکی تھی۔
جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ عدالت نے اس حق کو محدود نہیں کیا بلکہ مکمل طور پر ختم کر دیا ہے۔اتنے سارے امریکیوں کے لیے اتنے اہم حق کے ساتھ ایسا کبھی نہیں کیا گیا۔
امریکہ کی سینیٹ میں ری پبلکن رہنما مچ مکونل نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو جرات مندانہ قرار دیا۔
ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ جرات مندانہ اور درست ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آئین کے ساتھ ساتھ امریکی معاشرے میں سب سے کمزور افراد کے لیے یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے۔
حمایت اور مخالفت میں مظاہرے
امریکہ میں لگ بھگ پانچ دہائیوں تک رائج رہنے والے اسقاطِ حمل کے آئینی حق کو سپریم کورٹ کی جانب سے کالعدم کرنے کےفیصلے کے خلاف احتجاج کے لیے مظاہرین مختلف شہروں میں جمع ہو رہے ہیں۔
نیویارک، اٹلانٹا، ڈیٹرائٹ اور لاس اینجلس سمیت دیگر شہروں میں ایک بڑی تعداد میں لوگ پہلے ہی سڑکوں پر آ گئے تھے۔ نیویارک شہر میں سینکڑوں مظاہرین احتجاج کے دوران اس آئینی حق کے خاتمے اور عدالتی فیصلے پر نعرے لگاتے رہے۔
جمعے کو واشنگٹن ڈی سی میں اسقاطِ حمل کے حق کے حامی اور مخالف دونوں سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر جمع ہوئے۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس معاملے پر مزید مظاہر ہو سکتے ہیں اور ہفتے کے آخر میں مظاہروں کا دائرہ بڑھ جائے گا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعے کو امریکیوں پر زور دیا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے مظاہرے کرتے ہوئے پرامن رہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ بہت سے امریکی مایوسی کا شکار ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں کہا کہ تشدد سے بچنا چاہیے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ تشدد کبھی بھی قابل قبول نہیں ہے۔ کسی بھی شکل میں تشدد کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے، چاہے آپ کی رائے کچھ بھی ہو۔
واشنگٹن کے میئر موریل باؤزر نے کہا کہ شہر کے چیف آف پولیس وفاقی حکام کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ لوگ امریکی آئین کی پہلی ترمیم کے حقوق کو محفوظ طریقے سے استعمال کر سکیں۔
امریکی کمپنیوں کی اسقاطِ حمل کے لیے مدد کی پیش کش
عدالتی فیصلے کے بعد امریکہ کی بعض کمپنیوں نے اپنے ملازمین کو اسقاطِ حمل کے لیے سفر میں معاونت کی پیش کش کی ہے۔
’والٹ ڈزنی‘ اور فیس بک کے پیرنٹ ’میٹا پلیٹ فارمز انکارپوریشن‘ نے جمعے کو کہا کہ اگر وہ امریکہ کی سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اگر ان اداروں کے ملازمین اسقاطِ حمل کی خدمات کے لیے سفر کرنا چاہتے ہیں، تو وہ ان کے اخراجات پورے کریں گے۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ ایسی ریاستیں جہاں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اسقاطِ حمل پر پابندی لگائی جائے گی یا اس حوالے سے حقوق کو محدود کیا جائے گا، وہاں خواتین ملازمین کے لیے حمل کو ختم کرنا مشکل ہوگا کیوں کہ ان کے لیے اسقاطِ حمل اس وقت ہی ممکن ہو پائے گا جب وہ ان ریاستوں کا سفر کریں گی جہاں اس کی اجازت ہو گی۔
’والٹ ڈزنی‘ نے جمعے کو ملازمین کو بتایا کہ اسقاطِ حمل کے فیصلے کے اثرات کو تسلیم کیا جاتا ہے البتہ ڈزنی کے ترجمان کے مطابق وہ اسقاطِ حمل سمیت معیاری صحت کی سہولیات تک رسائی فراہم کرنے کے لیے پر عزم ہے۔
’میٹا‘ کے مطابق وہ ریاست سے باہر تولیدی نگہداشت کے خواہاں ملازمین کے سفری اخراجات کی ادائیگی کرے گا۔ اس کے ایک ترجمان کے مطابق کمپنی اس حوالےسے قانونی پیچیدگیوں کے پیشِ نظر ایسا کرنے کے بہترین طریقے کا بھی جائزہ لے رہی ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ وہ کمپنیاں جو اسقاطِ حمل سے متعلق سفر کے لیے معاوضے کی پیشکش کرتی ہیں وہ اسقاطِ حمل مخالف گروپوں یا ری پبلکن پارٹی کی زیرِ قیادت ریاستوں میں قانونی چارہ جوئی کا سامنا کر سکتی ہیں۔ حتیٰ کہ ان کو سزائیں بھی ہو سکتی ہیں۔
وکلاء اور دیگر ماہرین کہتے ہیں کہ آجروں کو ان الزامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کہ ان کی پالیسیاں اسقاطِ حمل پر پابندی، اس حوالے سے مدد کرنے اور اسقاطِ حمل کو روکنے کے ریاستی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
اس رپورٹ میں کچھ مواد خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ اور ’رائٹرز‘ سے لیا گیا ہے۔