امریکہ اور برطانیہ نے پیر کے روز اپنے شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ افغانستان کے ہوٹلوں میں ٹھہرنے سے احتراز کریں۔ اس سے چند ہی روز قبل ایک مسجد پر حملے میں درجنوں افراد ہلاک ہو گئے تھے، جس کی ذمے داری داعش خراسان قبول کر چکا ہے۔ خود کو دولت اسلامیہ کہلوانے والا یہ گروہ اس وقت افغانستان میں سرگرم ہے۔
طالبان،جنھوں نے اگست میں اقتدار پر قبضہ کر کے اسلامی امارات کا اعلان کیا، بین الاقوامی برادری کی جانب سے تسلیم کیے جانے اور امداد کے حصول کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ افغانستان میں انسانی سانحے اور معاشی بحران سے بچا جا سکے۔
تاہم، ایسے میں جب یہ اسلام پسند سخت گیر گروہ اقتدار سنبھا لنے کی جستجو کر رہا ہے، وہ داعش کے افغانستان کے دھڑے سے درپیش خطرات سے نمٹنے کا بھی خواہاں ہے۔
علاقے کے ''سیکیورٹی خدشات'' کا حوالہ دیتے ہوئے، امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ وہ امریکی شہری جو سرینا ہوٹل یا اس کے آس پاس موجود ہیں، انھیں فوری طور پر وہاں سے نکل جانا چاہیے۔
ادھر برطانیہ کے امور خارجہ، کامن ویلتھ اور ترقی سے متعلق دفتر نے کہا ہے کہ ''بڑھتے ہوئے خدشات کے پیش نظر، مشورہ دیا جاتا ہے کہ ہوٹلوں، خاص طور پر سرینا جیسے ہوٹلوں میں ٹھہرے سے احتراز کیا جائے''۔
طالبان کی جانب سے اقتدار سنبھالنے کے بعد کئی غیر ملکی افغانستان سے جا چکے ہیں، لیکن چند صحافی اور امدادی کارکن ابھی تک دارالحکومت میں موجود ہیں۔
مشہور سرینا ہوٹل، جو کاروباری مسافروں اور غیر ملکی مہمانوں میں ایک مقبول نام ہے، اس پر طالبان دو بار حملہ کر چکے ہیں۔
سن 2014 میں صدارتی انتخابات سے چند ہی ہفتے قبل چار مسلح نوجوانوں نے، جنھوں نے اپنی جرابوں کے اندر پستول چھپا رکھے تھے، سیکیورٹی کے مضبوط حصار کو جھانسہ دے کر ہوٹل کے اندر داخل ہونے کے بعد نو افراد کو ہلاک کیا تھا، جن میں اے ایف پی کا ایک صحافی اور اس کے اہل خانہ شامل تھے۔
سن 2008 میں ایک خودکش بم حملہ آور نے چھ افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
اگست میں جب غیر ملکی شہریوں اور خطرات میں گھرے افغان باشندوں کے انخلا کا عمل جاری تھا، نیٹو ملکوں نے سیکیورٹی خطرات کے بارے میں متعدد بار انتباہ جاری کیا تھا، لوگوں سے یہ کہا گیا تھا کہ وہ کابل کے ہوائی اڈے سے دور رہیں۔
اسی موقع پر ایک خودکش بم حملہ آور ایئرپورٹ کے ایک گیٹ کے قریب اکٹھے لوگوں کے اجتماع کے پاس دھماکہ کیا گیا تھا جس سے ایک سو سے زیادہ عام شہری اور 13 امریکی فوجی اہل کار ہلاک ہو گئے تھے۔
حملے کی ذمہ داری داعش خراسان نے قبول کی تھی۔ اس دہشت گرد گروپ نے طالبان محافظوں کو ہدف بنانے اور جمعے کو قندوز شہر میں تباہ کُن بم حملے کی ذمے داری بھی قبول کی ہے، جس کا نشانہ جمعہ کی نماز ادا کرنے والے بن گئے تھے۔ اگست میں امریکی افواج کے انخلا کے بعد یہ ملک میں ہونے والا خونریز ترین حملہ تھا۔