رسائی کے لنکس

امریکہ میں نئی اور پرانی گاڑیوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کیوں کر رہی ہیں؟


فائل فوٹو: اس 1 جولائی 2016 کی فائل تصویر میں، ڈرائیور رش کے اوقات میں ڈلاس سے باہر نکلتے ہوئے کام کر رہے ہیں (فوٹو- اےپی)
فائل فوٹو: اس 1 جولائی 2016 کی فائل تصویر میں، ڈرائیور رش کے اوقات میں ڈلاس سے باہر نکلتے ہوئے کام کر رہے ہیں (فوٹو- اےپی)

گاڑیوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمتیں مہنگائی سے دوچار پاکستان اور دوسرے ترقی پذیر ممالک کے لیے ہی ایک مسئلہ نہیں ہے بلکہ دنیا کے امیر ترین ملک اور بڑی آٹو مارکیٹ امریکہ میں بھی گاڑیوں کی قیمتوں میں تاریخی اضافہ ہوا ہے۔
امریکہ میں ذاتی استعمال کی گاڑی کو زندگی کی اہم ترین ضروریات میں شمار کیا جاتا ہے۔ لیکن عالمی وبا سے پیدا ہونے والے افراط زراور آٹو سیکٹر میں کمپیوٹر چپس کی قلت جیسے مسائل نے گاڑیوں کی قیمتوں میں اس حد تک اضافہ کردیا ہے کہ انہیں خریدنا عام شہریوں کے دسترس سے باہر دکھائی دیتا ہے۔

آٹو صنعت کے ماہرین کا یہاں تک کہنا ہے کہ پرانی گاڑی اور نئی گاڑیوں کی قیمتیں برابر ہوتی نظر آ رہی ہیں۔

آخر یہ سب کیسے ہوا؟

باقی چیلنجز کی طرح آٹو بحران کا ذمہ دار بھی کرونا کی عالمی وبا کو ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق ہوا یہ کہ گاڑیاں بنانے والے پلانٹس نے کرونا بحران کے آغاز میں وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے پلانٹس میں نئی گاڑیوں بنانے کا کام عملاً سست کر دیا تھا۔

جیسے جیسے مارکیٹ میں نئی گاڑیوں کی فروخت میں کمی آتی گئی، اسی طرح استعمال شدہ گاڑیوں کی خرید و فروخت میں بھی کم ہوتی چلی گئی۔

دریں اثنا ایک اور پیش رفت بیک وقت رونما ہوئی۔ کووڈ-19 سے بچاؤ کی وجہ سے دفاتر بند ہو جانے کے باعث زیادہ سے زیادہ سے زیادہ لوگوں نے گھروں سے دفتر کا کام کرنا شروع کر دیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لیپ ٹاپ کمپیوٹرز اور مانیٹرز کی مانگ میں کئی گنا اضافہ ہوا۔

لہذا سیمی کنڈکٹرز بنانے والی کمپنیوں نے اس مانگ کو دیکھتے ہوئے اپنی توجہ آٹو صنعت کی بجائے صارفین کے استعمال میں آنے والی الیکٹرانک اشیا پر مرکوز کر دی۔ یاد رہے کہ جدید آٹو انڈسٹری بہت زیادہ چپس پر انحصار کرتی ہے۔

کرونا بحران کے امریکی معیشت پر اثرات
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:21 0:00

اس اقتصادی تعطل کے بعد امریکہ میں معیشت پیش گوئیوں کے برعکس بہت تیزی سے سنبھلنے لگی اور گاڑیوں کی طلب میں اچانک اضافہ ہوگیا۔

ان حالات میں آٹو انڈسٹری نے پیداوار کو مکمل طور پر بحال کرنے کی کوشش تو کی لیکن چپ بنانے والی کمپنیاں طلب کے مطابق تیزی سے چپ تیار کرنے میں ناکام رہیں۔

مارکیٹ کے اس رجحان کے دوران جب آٹو ڈیلرز طلب کے مطابق نئی گاڑیاں نہ خرید سکے تو نتیجتاً انہوں نے استعمال شدہ گاڑیوں کی فروخت روک دی۔ اس طرح مارکیٹ میں پرانی گاڑیوں کی بھی کمی آتی گئی۔

قیمتوں کا تازہ ترین رجحان کیا ہے؟

عالمی وبا کے پھیلنے کے دو سال بعد اب نئی گاڑیوں کی قیمتیں بھی تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ گاڑیوں کے متعلق ماہرانہ رائے دینے والی امریکی کمپنی "ایڈمنڈز ڈاٹ کام" کے مطابق ایک نئی گاڑی کی اوسط قیمت 46 ہزار ڈالرز کے قریب پہنچ رہی ہے۔

مارکیٹ میں اب استعمال شدہ گاڑی نئی گاڑی کے بھاو بک رہی ہے۔

عالمی وبا کے پھوٹنے کے بعد استعمال شدہ گاڑیوں کی قیمتوں میں 42 فیصد اضافہ ہوا ہے جو کہ اسی عرصے میں نئی گاڑیوں کی قیمت میں اضافے کے مقابلے میں دو گنا زیادہ ہے۔

استعمال شدہ گاڑی کی قیمت ہوشربا انتیس ہزار ڈالرز

تازہ ترین حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ دن اب ماضی کا قصہ بن گئے ہیں کہ جب کوئی بھی مستحکم آمدنی والا شخص آٹو ڈیلرز سے نسبتاً نئے ماڈل کی قابل بھروسہ کارخرید سکتا تھا یا وہ چند ہزار ڈالرز میں اپنے بچے کی پہلی گاڑی لے سکتا تھا۔

استعمال شدہ گاڑی کے خریدار پریشان ہیں کہ اب گاڑی کی اوسط قیمت 29,011 ہزار ڈالرز ہو گئی ہے۔ اس سلسلے میں ریاست نیبراسکا کے شہر اوماہا میں استعمال شدہ گاڑیوں کی کمپنی کے مالک جیف شریئر، جو گزشتہ 35 سالوں سے یہ کاروبار کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ انہوں نے پہلے کبھی ایسے حالات نہیں دیکھے۔" یہ پاگل پن دکھائی دیتا ہے۔"

امریکہ میں گھروں کی قیمت میں بے انتہا اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:39 0:00

وہ کہتے ہیں کہ بہت سے لوگوں کے لیے یہ بات مایوس کن ہے۔

کچھ ماہ قبل ایک خاتوں کار خریدنے کے لیے ان کی کمپنی آئیں۔ وہ کم بجٹ سے خریداری کرنے آئیں اور انہیں کام پر آنے جانے کے لیے ایک گاڑی درکار تھی۔

جب انہیں ساڑھے سات ہزار قیمت کی گاڑیاں دکھائی گئیں تو وہ ششدر رہ گئیں کہ اتنی بڑی رقم کے عوض وہ ایک بہت پرانی گاڑی خرید پائیں گی جو کئی ہزار میل بھی چل چکی ہو گی۔

آخر کار وہ خاتون 2013 کی ٹویوٹا سائین گاڑی خرید سکیں جو پہلے ہی 160,000 میل چل چکی تھی۔

آٹو بزنس کے مالک شریئر نے کہا کہ انہیں نہیں معلوم کہ انہوں نے اس فروخت سے کچھ منافع حاصل کیا یا نہیں، کیونکہ وہ اس خاتوں کی مدد کرنا چاہتے تھے۔

کیا قیمتیں کبھی کم بھی ہوں گی؟

اے پی کے مطابق چونکہ استعمال شدہ گاڑیوں کی قیمتیں بظاہر منطقی سطح سے آگے نکل گئی ہیں، اس لیے ملک بھر میں بہت سے آٹو ڈیلرز اسی انداز سے چل رہے ہیں۔

قیمتیں اتنی زیادہ اور اتنی تیزی سے بڑھ گئی ہیں کہ خریداروں کی سکت سے باہر ہو گئی ہیں۔ مثال کے طور پر "ایڈمنڈز ڈاٹ کام" کے مطابق نومبر میں امریکہ میں استعمال شدہ گاڑی کی اوسط قیمت 29 ہزار ڈالر تھی جو 12 ماہ پہلے کے مقابلے میں 39 فیصد زیادہ تھی۔

امریکہ میں حکومتی اعداد و شمار کے مطابق نومبر میں ختم ہونے والے 12 مہینوں میں افراط زر میں تقریباً 7 فیصد اضافہ ہوا جو کہ گزشتہ تقریباً 40 سالوں میں سب سے زہادہ ہے۔ ماہرین کے مطابق ان حالات کے پس پشت عوامل میں توانائی کے علاوہ سب سے بڑا عنصر استعمال شدہ گاڑیاں تھیں۔

ماہرین کے مطابق جب کہ گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے کی شرح اب کم ہو رہی ہے، مستقبل قریب میں ان کی قیمتیں کم ہونے کا امکان نہیں ہیں۔

استعمال شدہ گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے سے کسی کو فائدہ بھی ہوا ہے؟

رینٹل کمپنیاں جو کہ لیٹ ماڈل کی استعمال شدہ کاروں کا ایک اور اہم ذریعہ ہیں، اب نئی گاڑیاں نہیں خرید سکتیں اور اپنی موجودہ کاروں کو اپنے پاس رکھ رہی ہیں۔ کچھ رینٹل کمپنیاں استعمال شدہ گاڑیاں بھی خرید رہی ہیں۔

ان تمام عوامل کو دیکھتے ہوئے جے ڈی پاور کمپنی کے سینئر مینیجر جے ڈی پیرس کو توقع ہے کہ 2024 تک استعمال شدہ کاروں کی کمی مزید بڑھ جائے گی۔

وہ صارفین جو استعمال شدہ کار بیچنا چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ وہ اپنی گاڑیوں کو تبدیل کریں، انہیں استعمال شدہ گاڑیوں کی قیمتوں میں ٹریڈ ان یعنی پرانی گاڑی کے عوض نئی گاڑی لینے میں اس ساری صورت حال سے فائدہ ہوا ہے۔

ایسے صارفین کے لیے، پیرس کہتے ہیں کہ اکتوبر میں ٹریڈ کی اوسط قدر 9,000 ڈالرز تھی جو ایک سال پہلے کی نسبت دوگنا تھی۔

لیکن پیرس کہتے ہیں کہ وہ لوگ جن کے پاس ٹریڈ ان کرنے کے لیے گاڑیاں نہیں ہیں اور ان کی معمولی آمدنی ہے، انہی نئی گاڑی خریدنے پر غور کرنا چاہیے۔

(اس آرٹیکل کا کچھ مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے)

XS
SM
MD
LG