امریکی حکام عندیہ دے رہے ہیں کہ میانمار میں متوقع الیکشن سے ملک میں جمہوریت کو فروغ ملے گا مگر ناقدین کا کہنا ہے کہ فوج اب بھی بہت طاقتور ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے جمعرات کو کہا ہے کہ اہم عہدیدار یہ جاننے کے لیے اتوار کے الیکشن کا بغور جائزہ لے رہے ہیں کہ ملک میں فوجی آمریت سے جمہوریت کی طرف پیش رفت ہوئی ہے یا نہیں۔
ترجمان جان کربی نے کہا کہ امریکی سفیر ڈیرک مچل، امریکی سفارتخانے کا عملہ، ایو ایس ایڈ کے عہدیدار جوناتھن سٹرائیور اور کانگریس کا عملہ پورے الیکشن کی نگرانی کرے گا۔
’’امریکہ نے سول سوسائٹی تنظیموں کو الیکشن کی نگرانی کی تربیت اور معاونت فراہم کی ہے جو ملک بھر میں 5000 خود مختار اور غیر جانبدار الیکشن مبصرین تعینات کریں گی اور ہم برما کی حکومت پر زور دیں گے کہ وہ مبصرین کو فوجی علاقوں میں پیشگی رائے شماری دیکھنے کی اجازت دے۔‘‘
الیکشن کے انعقاد میں ایک بڑا مسئلہ الیکشن کمیشن کی طرف سے حتمی ووٹر لسٹوں کی تیاری میں ناکامی ہے۔
امریکہ نے گزشتہ چند سالوں میں میانمار کے جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے میں لاکھوں ڈالر خرچ کیے ہیں جن میں ووٹروں کو آگاہی، الیکشن اہلکاروں اور مبصرین کی تربیت اور سیاسی جماعتوں کو مضبوط بنانے کے لیے اداروں کے ساتھ کام کے اقدامات شامل ہیں۔
میانمار کے الیکشن کو کئی دہائیوں سے جاری فوجی حکمرانی کے بعد سیاسی تبدیلی میں اہم تصور کیا جا رہا ہے۔ یہ 2011 میں سویلین حکومت متعارف کرائے جانے کے بعد ملک کے پہلے عام انتخابات ہوں گے۔
2012 میں امریکہ نے امریکی کمپنیوں کو میانمار میں کاروبار کی اجازت دی تھی۔
اگرچہ میانمار کی حکومت نے 2011 سے اب تک کئی اصلاحات کی ہیں مگر ناقدین کا کہنا ہے کہ اس میں اب بھی بہت سے چیلنج موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ منصفانہ اور سب کی شمولیت یقینی بنانے والی جمہوریت میں آئینی پابندیاں اور نسلی اور مذہبی گروہوں کے خلاف امتیاز کی ادارہ جاتی رکاوٹیں موجود ہیں۔
اگرچہ آنگ سانگ سو چی حکمران جماعت کے خلاف پرزور مہم چلا رہی ہیں مگر موجودہ آئین کے مطابق وہ صدر نہیں بن سکتیں۔
ناقدین نے لاکھوں نسلی اور مذہبی گروہوں کی حق رائے دہی سے محرومی کی بھی نشاندہی کی ہے جن میں روہنگیا مسلمان بھی شامل ہیں۔