یونائیٹڈ سٹیٹس ایجنسی فار گلوبل میڈیا کی چیف ایگزیکٹو آفیسر امینڈا بینیٹ نے جمعرات کو کہا کہ وہ جس ایجنسی کی قیادت کر رہی ہیں، اسے عالمی سطح پرایک نازک وقت کا سامنا ہے اور مصدقہ خبروں تک رسائی کوآمرانہ حکومتوں سے خطرہ ہے۔
امریکی ایوان کی تخصیصِ بجٹ کمیٹی یا "اپروپرئیشنزکمیٹی" کے سامنے سماعت کے دوران، یونائیٹڈ سٹیٹس ایجنسی فار گلوبل میڈیا (USAGM ) کی سربراہ امینڈا بینیٹ نے قانون سازوں کو بتایا کہ اس کے باوجود کہ روسی اور چینی میڈیا کو بہتر مالی وسائل حاصل ہیں، یوایس اے جی ایم نیوزنیٹ ورک نے اپنی غیر جانبدارصحافت کی وجہ سےدنیا بھر میں ان کے میڈیا آپریشنز پر سبقت حاصل کر لی ہے۔
بینیٹ نے کہا، ’’اگرہم نےروس اور [چین] کی جانب سےمداخلت کا مقابلہ کرنے کے لیے سرمایہ کاری کا یہ موقع ضائع کر دیا، تو ہم عالمی سطح پرابلاغ عامّہ کی جنگ ہارنے کا خطرہ مول لیں گے۔"
بینیٹ نے کیوبا براڈکاسٹنگ کے دفتر میں صحافتی معیار کو بہتر بنانے کی کوششوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ USAGM نیوز نیٹ ورکس کی جانب سے چین اورایران جیسے ملکوں میں سامعین تک پہنچنے کے لیے سیٹلائٹ اور سرکومینشن ٹیکنالوجیز کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ انہوں نےUSAGM نیٹ ورکس کی مصدقہ خبروں کی رسائی اوراثر کا بھی ذکر کیا، جنہیں روس بلاک کرنے کی مسلسل کوششیں کرتا رہتا ہے۔
اس سماعت میں قانون سازوں نے کیوبا میں آزاد میڈیا کی حالت پر تشویش کا اظہار کیا اور یہ تجویز دی کہ امریکی نشریات اس مسئلے کوحل کرنے کے لیے مزید کچھ کرسکتی ہیں۔
USAGM کی سربراہ بینیٹ نے قانون سازوں کو بتایا کہ’’ کیوبا دنیا کے سب سے زیادہ پابندی والے میڈیا ماحول میں سے ایک ہے۔ میرے خیال میں اس نے بہت کامیابی کے ساتھ اپنے عوام کو باقی دنیا سے الگ کر دیا ہے۔ مگر کیوبا کے لوگ اب بھی تازہ خبروں اور معلومات کی تلاش میں ہیں جس کے لیے انہیں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘
USAGM کا آفس آف کیوبا براڈکاسٹنگ 1985 سے کیوبا کے لوگوں کے لیے خبریں اورمعلومات نشر کررہا ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں، میامی میں قائم صحافتی ادارے کو اپنے عملے کی صحافتی دیانتداری کے بارے میں تنقید کا سامنا کرنا پڑا ۔ بینیٹ نے اعتراف کیا کہ ماضی میں اہم خامیاں موجود رہی ہیں اورکہا کہ اس سلسلے میں بہت سی اصلاحات کی گئی ہیں۔
بینیٹ نے قانون سازوں کو بتایا کہ ’’ہم واقعی بہت جارحانہ انداز میں ایسے ضابطے تشکیل دینے کی طرف بڑھ رہے ہیں جو یہ ضمانت دینے میں مدد کریں گے‘‘ ۔ ان کا کہنا تھا کہ مزید جارحانہ انداز میں مواد کا جائزہ لینے سے ہمیں یہ جاننے میں مدد ملی ہے کہ کیا ہو رہا ہے اورہم اس بات کو یقینی بنا رہے ہیں کہ اعلیٰ صحافتی اقدار کو قائم رکھنے کے لیے کسی قسم کی رو رعایت نہ برتی جائے۔
گزشتہ سال بینیٹ کی، USAGM کی سی ای او کے طور پرتین سال کی مدت کے لیے امریکی سینیٹ میں، 36 کے مقابلے میں60 ووٹوں سے توثیق کر دی گئی۔ انہوں نے 2016 سے 2020 تک وائس آف امریکہ کی ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دیں، جس کے بعد انہوں نے ٹرمپ کے مقرر کردہ مائیکل پیک کے USAGM کے سی ای او کا عہدہ سنبھالنے سے قبل استعفیٰ دے دیا تھا۔
بینیٹ کو تصدیقی عمل کے دوران اپنے دورحکومت میں ملازمین کے لیے سیکیورٹی کلیئرنس کے عمل کے بارے میں خدشات اور2017 میں ایک چینی مخالف کے ساتھ VOA مینڈرین سروس کے انٹرویو کو مختصر کرنے کے فیصلے کی وجہ سے کچھ ریپبلکن کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
VOA میں آنے سے پہلے، امینڈا بینیٹ نے بلومبرگ نیوزمیں ایگزیکٹو ایڈیٹر کے طورپرکام کیا اوردی اوریگونین اخبار کی منیجنگ ایڈیٹر رہیں۔ وہ دو دہائیوں سے زیادہ عرصے تک وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹر بھی رہیں۔ چھ نان فکشن کتابیں لکھیں اور دو بار پلٹزر پرائز بھی شیئر کیا ۔
USAGM کے اندازوں کے مطابق، ہر ہفتے 394 ملین لوگ اس ادارے کے پروگراموں تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ امریکی کانگریس کے زیر نگرانی وفاقی طور پرمالی امداد سے چلنے والی ایجنسی کے پاس دو وفاقی ادارے ہیں، وائس آف امریکہ اور آفس آف کیوبا براڈکاسٹنگ۔ اس کے چار غیر منافع بخش ادارے بھی ہیں: ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی، ریڈیو فری ایشیا، مڈل ایسٹ براڈکاسٹنگ نیٹ ورکس، اوراوپن ٹیکنالوجی فنڈ۔
(وی او اے نیوز)