|
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران اور اس کے اتحادیوں کے خلاف اسرائیلی انٹیلیجنس کی کامیابیوں کے ایک حالیہ سلسلے نے ایران کی اسٹیبلشمنٹ میں اسرائیلی دراندازی کی حد کو اجاگر کر دیا ہے، جو ایرانی قیادت کے لئے بڑی پریشانی کا باعث بن رہی ہے۔
ابھی تک یہ ایک انتہائی خفیہ راز ہے کہ اسرائیل نے ایران کی انتظامیہ اور سیکورٹی کے آلات تک کیسے اور کتنی گہرائی سے دراندازی کی ہے۔
لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے ایران میں ہلاکتوں، ٹارگٹڈ حملوں اور خفیہ آپریشنز سمیت جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ اعلیٰ سطح پر معلومات کے افشا کیے بغیر ناممکن ہوتیں۔
دراندازی کا مسئلہ سنگین کیوں ہے؟
اسلامی جمہوریہ کے اندر اسرائیل کی رسائی کی حد کا مسئلہ خاص طور پر اس لئے بھی سنگین ہے کہ دونوں دشمنوں کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے اور دونوں فریق پہلی بار ایک دوسرے کی سرزمین پر کھلے عام حملے کر رہے ہیں۔
سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے ایک سینئر مشیر نے اسلامی جمہوریہ کے لیے معاملے کی سنگینی ک،ا غیر معمولی طور پر عوامی سطح پر اعتراف کرتے ہوئےگزشتہ ہفتے کہا تھا کہ "حالیہ برسوں میں دراندازی کا مسئلہ بہت سنگین ہو گیا ہے۔"
خبررساں ادارے اسنا نے پارلیمنٹ کے سابق اسپیکر اور جوہری مذاکرات کار علی لاریجانی سےیہ بیان منسوب کیا کہ، "برسوں سے غفلت کے کچھ واقعات ہوتے رہے ہیں۔"
دشمن برسوں سوچتا ہے اور لمحے میں تکلیف دے دیتا ہے: لاریجانی
بیروت میں ستمبر کے آخر میں ایک اسرائیلی حملے میں ایران کےحمایت یافتہ لبنانی عسکریت پسند گروپ حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ کی ہلاکت ایک ایسی شخصیت کے بارے میں تفصیلی معلومات کے ساتھ ہی ممکن تھی جن کی نقل و حرکت پر گہری نظر رکھی گئی تھی اور اسے راز میں رکھا گیا تھا۔
ایران کے حمایت یافتہ فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ کو اس موسم گرما میں تہران میں ایک رہائش گاہ میں مبینہ طور پر ایک ایسادھماکہ خیز آلہ استعمال کر کے قتل کر دیا گیا تھا،جسےکہاجاتا ہے کہ اسرائیلی کارندوں نے ہفتوں پہلے رکھا تھا۔
اس سےایک روز قبل، ہنیہ نے ایران کے نئے صدر مسعود پیزشکیان کی حلف برداری میں شرکت کی تھی اور خامنہ ای کے ساتھ بات چیت کی تھی۔
سب سے زیادہ چونکا دینے والا واقعہ لبنان میں حزب اللہ کے عسکریت پسندوں کے زیر استعمال سینکڑوں پیجرز میں بیک وقت دھماکوں کا تھا جو ان پیجرز کی سپلائی چین میں کئی برسوں کی دراندازی کے بعد ہوئے۔ ان دھماکوں میں 37 افراد ہلاک اور 3000 زخمی ہوئے تھے۔
اگرچہ اسرائیل نے عوامی طور پر کبھی بھی ہنیہ کے قتل یا پیجر حملوں میں اپنے کردار کو تسلیم نہیں کیا، تاہم دونوں کو بڑے پیمانے پر اس سے منسوب کیا گیا ہے۔
لاریجانی نے تبصرہ کیا، "آپ کا ایک ایسا دشمن ہے جو برسوں تک سوچتا ہے، اور ایک لمحے میں آپ کوتکلیف پہنچا دیتا ہے۔"
اس رپورٹ کا موادراے ایف پی سے لیا گیا ہے۔
فورم