رسائی کے لنکس

عمر قید کی سزا اور پھر رہائی: سابق فوجی افسر کی غداری کے الزامات غلط ثابت کرنے کی کوشش


فائل فوٹو
فائل فوٹو

غداری اور جاسوسی کے الزامات کا سامنا کرنے والے پاکستان فوج کے سابق لیفٹننٹ جنرل جاوید اقبال خود پر عائد الزامات کو غلط ثابت کرنے کی تگ و دو میں لگے ہیں۔

لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ جاوید اقبال کو گزشتہ ہفتے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی طرف سے سزا ختم کیے جانے کے بعدجیل سے رہا کیا گیا تھا لیکن ان کے وکیل کے مطابق جنرل جاوید چاہتے ہیں کہ ان پر عائد تمام الزامات واپس لیے جائیں۔

لیفٹننٹ جنرل (ر) جاوید اقبال نے لاہور ہائی کورٹ میں دائر اپنی درخواست میں خود پر عائد تمام الزامات سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ ان پر آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت وہ معلومات دینے کا الزام لگایا گیا ہے جو انٹرنیٹ پر موجود ہے اور بیشتر معلومات فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) نے خود جاری کی ہیں۔

لیفٹننٹ جنرل (ر) جاوید اقبال کے خلاف مارچ 2019 میں کورٹ مارشل کی کارروائی شروع ہوئی تھی اور مئی 2019 میں انہیں چھ الزامات پر14 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

جاوید اقبال پر جاسوسی کے الزامات لگنے اور سزا کے باوجود ان کے رینکس واپس نہیں لیے گئے اور انہیں آج بھی تمام مراعات حاصل ہیں۔

لیفٹننٹ جنرل (ر)جاوید اقبال پر لگائے گئے الزامات

لیفٹننٹ جنرل (ر) جاوید اقبال کی طرف سے دائر رٹ پٹیشن میں ان کی طرف سے تمام الزامات کی تفصیل دی گئی ہے جس کے مطابق ان پر چھ مختلف الزامات لگے۔ ان پر پہلا الزام اپنی ذاتی معلومات اور اپنی آخری تین تعیناتیوں کی معلومات عام کرنا تھا۔

دوسرا الزام یہ تھا کہ انہوں نے دشمن کو بتایا کہ وزیرِاعظم تین ناموں کے پینل میں سے کسی ایک کی بطور آرمی چیف تعیناتی کرتا ہے۔

اسی طرح پاکستان فوج کی جانب سے افغان سرحد پر باڑ لگائے جانے، روس کے ساتھ فوج کی مشترکہ جنگی مشق، روس سے جنگی ہیلی کاپٹر خریدنے کے لیے بات چیت سمیت دیگر الزامات سے متعلق دشمن کو آگاہ کرنا شامل ہے۔

ان الزامات کے جواب میں جنرل جاوید نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ ان الزامات میں سے کوئی بھی ایسی معلومات نہیں جس کے بارے میں کہا جائے کہ وہ حساس اور خفیہ معلومات تھیں۔

ان کے بقول یہ سب معلومات انٹرنیٹ پر موجود ہیں اور پاکستان سمیت دنیا بھر کے اخبارات میں شائع ہوچکی ہیں۔ ان معلومات کے افشا ہونے کا کہہ کر کس طرح آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کا کہا جاسکتا ہے۔

مذکورہ تمام الزامات کے خلاف جنرل (ر) جاوید اقبال کی ایک درخواست لاہور ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت ہے جس کے لیے ایڈووکیٹ عمرفاروق آدم پیروی کر رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عمر فاروق نے بتایا کہ جنرل جاوید پرجن معلومات کو ظاہر کرنے کا الزام عائد کیا جارہا ہے وہ تمام معلومات ہر ایک شخص کی رسائی میں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جاسوسی اور غداری کے الزامات ایسے الزام ہیں جن کے ثابت ہونے پر کسی صورت معافی نہیں دی جاتی لیکن جنرل (ر) جاوید اقبال کے کیس میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی ایپلٹ کورٹ نے ان کی اپیل پر سزا 14 سال سے کم کرکے سات سال کی جس کے بعد سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے رخصت ہونے سے قبل اس سزا میں مزید ڈھائی سال کی کمی کی۔

ایڈووکیٹ عمر فاروق نے کہا کہ اگر ایک شخص جاسوس ہے اور غدار ہے تو اسے سزا میں رعایت کیسے دی جاسکتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان پر عائد تمام تر الزامات غلط اور بے بنیاد ہیں۔

پاکستان کی پہلی خاتون لیفٹننٹ جنرل نگار جوہر کی کہانی
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:59 0:00

ایڈووکیٹ عمرفاروق آدم کے مطابق جنرل جاوید کے خلاف یہ سب ہونے کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس کیس کے کچھ عرصے بعد سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت بعض سیاست دانوں کے خلاف مقدمات بنائے گئے۔ ان کے بقول، جنرل جاوید کے کیس کی مدد سے احتساب کا بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی کہ اگر فوجی جرنیلوں کا احتساب ہوسکتا ہے تو باقی لوگوں کا بھی لازمی ہوگا۔

ان کے خیال میں جنرل جاوید کے کیس کو ممکنہ طور پرمستقبل کے منصوبوں کے لیے استعمال کیا گیا ۔

اس بارے میں پاکستان فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر سے رابطہ کیا گیا لیکن اس خبر کی اشاعت تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

جنرل (ر) جاوید اقبال کے ساتھ ہوا کیا تھا؟

لیفٹننٹ جنرل جاوید اقبال 2015 میں ریٹائر ہوئے اور اس کے بعد انہیں سال 2019 میں گرفتار کیا گیا۔

انہیں کس بنیاد پر گرفتار کیا گیا؟ اس بارے میں جنرل جاوید اقبال نے اپنی پٹیشن میں بتایا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ذاتی دورے پر امریکہ گئےتھے جہاں ان کی ملاقات ریان کیسلر نامی شخص سے ہوئی جس نے خود کو ایک گیمنگ کمپنی کا کنسلٹنٹ بتایا تھا۔

ان کے بقول ریان کیسلر کا بتانا تھا کہ وہ ' ٹیک ٹو' نامی کمپنی کا کنسلٹنٹ ہے جو مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا سے متعلق ویڈیوز گیمز بنا رہے ہیں۔اسی سلسلے میں اس نے 2016 میں انہیں اپنی کمپنی کے دفتر میں مدعو کیا لیکن وہ مصروفیات کے باعث نہ جا سکے۔

لیفٹننٹ جنرل جاوید اقبال کے مطابق ریان کیسلر نے ایک گیم میں پاکستان کا حقیقی کلچر اور لباس و رہن سہن جاننے کے لیے کنسلٹنٹ کے طور پر ہائر کرنے کی خواہش ظاہر کی۔

اس گیم کی کہانی کے مطابق ایران سے چوری ہونے والا ایٹمی موادکراچی اسمگل کیا جاتا ہے اورکراچی کی گلیوں میں اسمگلرز اور پاکستان فوج کے درمیان ان ہتھیاروں کی تلاش میں لڑائی ہوتی ہے۔

جاوید اقبال کے بقول ان کی جانب سے کوئی معلومات نہ دیے جانے کے بعد ریان کیسلر نے انہیں بتایا کہ 'ٹیک ٹو' نے یہ پراجیکٹ بند کردیا ہے۔

ان کے بقول، ریان کیسلر نے ہاروڈ گریجویٹ برائن جانسن سے ملوایا جس نے بتایا کہ وہ امریکی حکومت کے لیے مختلف تحقیقاتی پیپرز لکھتے ہیں اگر وہ بھی پیپرز لکھیں تو اس کے لیے انہیں کنسلٹنٹ فیس بھی دی جائے گی۔

جنرل جاوید کے مطابق انہوں نے اس بارے میں پاکستان فوج سے اجازت حاصل کرنے کا بتایا اور کہا کہ فوج کی اجازت کے بغیر وہ کوئی بھی پیپر نہیں لکھ سکتے۔

بعد ازاں لیفٹننٹ جنرل (ر) جاوید اقبال نے اس بارے میں اس وقت کے چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹننٹ جنرل بلال اکبر سے بات کی جنہوں نے اس پر آمادگی کا اظہار کیا لیکن آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملنے اور اجازت لینے کا کہا۔

لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال کی پٹیشن کے مطابق وہ 2018 میں امریکہ کے دورے سے وطن واپس لوٹے تو انہیں سینے میں تکلیف ہوئی جس کے باعث انہیں راولپنڈی میں 'اے ایف آئی سی' میں داخل کروایا گیا جہاں جنرل باجوہ نے ان کی عیادت کی اور اس دوران اس بارے میں بھی بات ہوئی جس پر جنرل باجوہ نے کہا کہ" آپ اُن لوگوں کے ساتھ رابطہ رکھیں، آپ کی صحت بہتر ہونے پر اس بارے میں بات کریں گے۔"

ان کی پٹیشن کے بقول انہیں چند روز بعد ڈی جی آئی ایس آئی کی کال موصول ہوئی جس میں انہوں نے ملنے کا کہا جس کے بعد آئی ایس آئی کے افسر ان ملنے آئے۔

جنرل جاوید کے مطابق 5 دسمبر 2018 کو ڈی جی ایم آئی اور دیگر اعلیٰ افسران کے ساتھ ان کی ملاقات ہوئی جہاں ان سے پوچھا گیا کہ کیا آرمی چیف کا پروفائل امریکی اہلکاروں کو بتایا گیا ہے یا نہیں، دوسرا سوال یہ تھا کہ کیا میری اہلیہ امریکی گرین کارڈ ہولڈر ہیں۔

جنرل جاوید کے بقول ابتدائی بوچھ گچھ کے بعد انہیں حراستی مرکز میں لے جایا گیا جہاں تین افسران نے ان سے تفتیش کی اور اس دوران 9سے10 پولی گراف ٹیسٹ کیے گئے۔ ان سے بینک اکاؤنٹس کی معلومات، جائیدادوں کے متعلق تمام تفصیلات حاصل کی گئیں۔ اس کے بعد انہیں گھر جانے کی اجازت دے دی گئی۔

اٹھارہ مارچ 2019 کو لاہور میں کورکمانڈر ون کور نے ان کی فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی کی اور لیفٹننٹ جنرل بلال اکبر ان کے خلاف بطور عدالتی گواہ پیش ہوئے۔ 30 مئی 2019 کو انہیں 14 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔

پچیس مئی 2021 کو کورٹ آف اپیل میں ان کی اپیل پر سماعت ہوئی جس میں ان کی سزا کو سات سال کردیا گیا۔

جاوید اقبال کے وکیل عمرفاروق نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے مؤکل کے کیس کی سماعت کے دوران قانونی نکات کو نظر انداز کیا گیا جس پر انہوں نے لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ میں کیس فائل کیا ہے لیکن کئی بار تاریخ دیے جانے کے باوجود اس کیس کی سماعت نہیں ہوسکی۔ ان کے بقول اب امکان ہے کہ رواں ماہ کے آخر میں اس کیس کی سماعت ہوسکے گی۔

XS
SM
MD
LG