واشنگٹن —
امریکہ کی خانہ جنگی کے دور میں، صدر ابراہم لنکن نے گیٹسبرگ کے مشہور خطاب میں اپنے ہم وطنوں سے کہا تھا کہ وہ اِس بات کو یقینی بنائیں کہ آزادی دنیا سے نابود نہ ہو۔
گذشتہ برسوں میں، اُن کے الفاظ نے بہت سے لوگوں کو جوش و جذبہ عطا کیا ہے۔ اِن میں ہمارے ملک کی مسلح افواج کے وہ لاکھوں افراد بھی شامل ہیں جو نہ صرف امریکہ کی آزادی، بلکہ دوسرے ملکوں کی آزادی کی حفاظت کے لیے لڑتے رہے ہیں۔
’ویٹرنز ڈے‘، یعنی سابق فوجیوں کے دِن کے موقعے پر، امریکہ میں روزمرہ کی سرگرمیوں کو وقفہ دیا جاتا ہے، تاکہ اُن مردوں اور عورتوں کو اور فرائض کی انجام دہی اور قربانی کی اُن اقدارکو خراجِ تحسین پیش کا جا سکے جِن کی وہ نمائندگی کرتے ہیں۔
اپنی وردیوں کو خیرباد کہنے کے بعد بھی وہ اِس بات کی علامت رہتے ہیں کہ آزاد ملک کے شہری ہونے کا مطلب کیا ہے۔
قومی تعطیل کا آغاز، جو ہر سال 11 نومبر کو منائی جاتی ہے، اُس ’یومِ صلح‘سے ہوا جب 1918ء میں پہلی عالمی جنگ ختم ہوئی۔ اِس جنگ کو جو ایشیا، افریقہ، بہر الکاہل میں بکھرے ہوئے جزیروں اورجنوبی امریکہ کے ساحلی علاقے کے پانیوں میں، نیز یورپ کے جنگی میدانوں میں لڑی گئی، ایسی جنگ سمجھا گیا تھا جو تمام جنگوں کے خاتمے کے لیے لڑی گئی تھی۔
لیکن، اِس کے بعد بھی اور جنگیں ہوئیں اور 1954ء میں صدر آئزن ہاور نے اِس چھٹی کو وسعت دے کر اُن تمام لوگوں کو خراجِ تحسین کرنے کے لیے وقف کردیا جِنھوں نے فوج کی وردی پہن کر جنگ اور امن دونوں حالتوں میں خدمات انجام دیں۔
ہماری حکومت نے یہ کام آج تک جاری رکھا ہوا ہے۔ اُس نے فوج چھوڑنے والے سابق فوجیوں کےلیے روزگار تلاش کرنے اور سویلین زندگی میں اُن کی واپسی کو آسان بنانے کےلیے مدد کے پروگرام شروع کیے ہیں۔
صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ امریکہ کے سابق فوجیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ گھر واپس آئیں تو اُن کے لیے روزگار کی تلاش میں ہم ہر ممکن مدد دی جائے، تاکہ اُنھیں کبھی یہ احساس نہ ہو کہ جِس امریکی خواب کے دفاع کے لیے اُنھوں نے جنگ کی وہ اُن کی اور اُن کے گھرانوں کی پہنچ سے باہر ہے۔
لیکن، بنیادی طور پر سابق فوجیوں کا دِن جنگ کے بارے میں نہیں ہے۔اِس روز، میدانِ جنگ میں کسی فتح یا شکست کی یاد نہیں منائی جاتی۔ کسی سیاسی یا علاقائی عزم کی تکمیل کا جشن نہیں منایا جاتا۔
یہ یاد منانےکادِن ہے جِس میں برطانیہ، کینڈا، جنوبی افریقہ اور دوسرے ملکوں میں ایسی ہی چھٹیوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے، جو اپنے سابق فوجیوں کو اُن کی خدمات اور قربانیوں کے اعتراف پر خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔
گذشتہ برسوں میں، اُن کے الفاظ نے بہت سے لوگوں کو جوش و جذبہ عطا کیا ہے۔ اِن میں ہمارے ملک کی مسلح افواج کے وہ لاکھوں افراد بھی شامل ہیں جو نہ صرف امریکہ کی آزادی، بلکہ دوسرے ملکوں کی آزادی کی حفاظت کے لیے لڑتے رہے ہیں۔
’ویٹرنز ڈے‘، یعنی سابق فوجیوں کے دِن کے موقعے پر، امریکہ میں روزمرہ کی سرگرمیوں کو وقفہ دیا جاتا ہے، تاکہ اُن مردوں اور عورتوں کو اور فرائض کی انجام دہی اور قربانی کی اُن اقدارکو خراجِ تحسین پیش کا جا سکے جِن کی وہ نمائندگی کرتے ہیں۔
اپنی وردیوں کو خیرباد کہنے کے بعد بھی وہ اِس بات کی علامت رہتے ہیں کہ آزاد ملک کے شہری ہونے کا مطلب کیا ہے۔
قومی تعطیل کا آغاز، جو ہر سال 11 نومبر کو منائی جاتی ہے، اُس ’یومِ صلح‘سے ہوا جب 1918ء میں پہلی عالمی جنگ ختم ہوئی۔ اِس جنگ کو جو ایشیا، افریقہ، بہر الکاہل میں بکھرے ہوئے جزیروں اورجنوبی امریکہ کے ساحلی علاقے کے پانیوں میں، نیز یورپ کے جنگی میدانوں میں لڑی گئی، ایسی جنگ سمجھا گیا تھا جو تمام جنگوں کے خاتمے کے لیے لڑی گئی تھی۔
لیکن، اِس کے بعد بھی اور جنگیں ہوئیں اور 1954ء میں صدر آئزن ہاور نے اِس چھٹی کو وسعت دے کر اُن تمام لوگوں کو خراجِ تحسین کرنے کے لیے وقف کردیا جِنھوں نے فوج کی وردی پہن کر جنگ اور امن دونوں حالتوں میں خدمات انجام دیں۔
ہماری حکومت نے یہ کام آج تک جاری رکھا ہوا ہے۔ اُس نے فوج چھوڑنے والے سابق فوجیوں کےلیے روزگار تلاش کرنے اور سویلین زندگی میں اُن کی واپسی کو آسان بنانے کےلیے مدد کے پروگرام شروع کیے ہیں۔
صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ امریکہ کے سابق فوجیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ گھر واپس آئیں تو اُن کے لیے روزگار کی تلاش میں ہم ہر ممکن مدد دی جائے، تاکہ اُنھیں کبھی یہ احساس نہ ہو کہ جِس امریکی خواب کے دفاع کے لیے اُنھوں نے جنگ کی وہ اُن کی اور اُن کے گھرانوں کی پہنچ سے باہر ہے۔
لیکن، بنیادی طور پر سابق فوجیوں کا دِن جنگ کے بارے میں نہیں ہے۔اِس روز، میدانِ جنگ میں کسی فتح یا شکست کی یاد نہیں منائی جاتی۔ کسی سیاسی یا علاقائی عزم کی تکمیل کا جشن نہیں منایا جاتا۔
یہ یاد منانےکادِن ہے جِس میں برطانیہ، کینڈا، جنوبی افریقہ اور دوسرے ملکوں میں ایسی ہی چھٹیوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے، جو اپنے سابق فوجیوں کو اُن کی خدمات اور قربانیوں کے اعتراف پر خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔