جیسے جیسے ویت نام کی معیشت ترقی کررہی ہے اور کھاتے پیتے افراد کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے، اسی طرح ملک میں زندہ اور مردہ کتوں کا کاروبار بھی پھل پھول رہاہے۔ مہنگے کتے خرید کر پالنا نودولتیوں کا فیشن بنتا جارہاہے، جب کہ کتے کے گوشت کی فروخت بھی بڑھ رہی ہے جسے خاصا مہنگا تصور کیا جاتا ہے۔
کتے کی ران کی ڈش ویت نام میں اسی طرح مقبول ہے جیسے کئی ملکوں میں تلی ہوئی مچھلی اور گھونگھے۔
اکثر ویت نامی باشندوں کا خیال ہے کہ کتے کاگوشت نہ صرف خوش ذائقہ ہوتا ہے بلکہ اس میں غذائیت بھی زیادہ ہوتی ہے اور وہ جسم کو مضبوط بناتا ہے۔
بہت سے ویت نامی دیہاتوں میں کتوں پالنے کے فارم موجود ہیں ، جہاں سے اس کاروبار سے وابستہ افراد کتے خرید کر ان کا گوشت بڑے شہروں کے مہنگے ریستوانوں میں فروخت کرتے ہیں۔
ویت نام میں جانوروں کے شعبے کے ڈائریکٹر توان بن دیک سن کہتے ہیں ملک میں خوشحالی آنے سے ان لوگوں کی تعداد بڑھ گئی ہےجو کتے کی ڈش خرید سکتے ہیں۔ اس لیے کتے کی مانگ، اس کی کھپت اور قمیت میں اضافہ ہورہاہے۔
لاؤس کی سرحد سے ویت نام میں داخل ہونے والے کئی ٹرکوں میں پنجروں کا دکھائی دینا ایک عام سی بات ہے ، جن میں کتے مرغیوں کی طرح ٹھونس کر بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایک ٹرک کے ذریعے عموماً دو سو سے تین سو کتے لائے جاتے ہیں۔
مانگ میں مسلسل اضافے سے اب لاؤس سے کتوں کی اسمگلنگ بھی ہورہی ہے اور اسمگلروں کی گرفتاری کی خبریں اکثر میڈیا کا موضوع بننے لگی ہیں۔
بن ویک سن کہتے ہیں کہ ملک میں خوشحال آنے سے نئی نسل میں تبدیلی آرہی ہے اور وہ مغربی معاشرے کی طرح کتے پالنے کو ترجیح دے رہی ہے، جب کہ پرانی نسل کی پسندیدہ ڈش بدستور کتے کا گوشت ہی ہے۔
ویت نام کینل ایسوسی ایشن کے سینیئر منیجر کوئک باؤ کہتے ہیں کہ بیرونی ملکوں سے مختلف نسلوں کے کتوں کی درآمد مسلسل بڑھ رہی ہے جنہیں متمول گھرانے پالنے کے لیے خرید لیتے ہیں۔ایک جوان کتا عموماً ایک ہزار ڈالر میں فروخت ہوتا ہے ۔ یہ قیمت ایک مزور کی تنخواہ سے دس گنا زیادہ ہے۔
ڈائریکٹر توان کا کہناہے کہ اگرچہ ویت نام میں مغربی معاشرے کی طرح کتے کوپالنے اور دوست بنانے کا رواج بڑھ رہاہے لیکن انہیں ایسا دکھائی نہیں دیتا کہ آئندہ کئی عشروں تک اسے کھانے والوں کی تعداد میں کوئی کمی آسکے گی۔