آج کل ویتنام کو جنگ اور امن کے بجائے ڈالر اور سینٹ کمانے کی فکر زیادہ ہے ۔حکومت کی بیشتر توجہ تجارت اور اقتصادی امور پر ہے ۔ویتنام اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں بھی یہی چیزیں سرِ فہرست ہیں۔
لیکن 1975 ء کے بعد ویتنام کو بہت زیادہ جدو جہد کرنی پڑی ہے ۔نہ صرف یہ کہ اسے امریکہ کے ساتھ جنگ کے بعد ملک کی تعمیرِ نو کرنا پڑی، اسے دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اس کے سب سے بڑے سرپرست سوویت یونین کا خاتمہ ہو گیا اور کمیونسٹ سیاسی نظام بھی بڑی حد تک دنیا کے نقشے سے معدوم ہو گیا۔
جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے فریڈرک براون کہتے ہیں کہ ویتنام کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ بدلے ہوئے حالات سے سمجھوتہ کرے ۔ ان کا کہنا ہے کہ’’1986ء میں جب یہ نظر آنے لگا کہ سوویت یونین اور یورپ میں کمیونزم کا خاتمہ ہوا چاہتا ہے تو ویتنام کے لیے فیصلہ کرنے کا وقت آگیا۔ اسے معیشت کا مارکسٹ ماڈل ترک کرنا پڑا۔یہ فیصلہ 1986ء میں پارٹی کی چھٹی کانگریس میں کیا گیا۔ اس طرح بتدریج تبدیلی کا غیر معمولی عمل شروع ہوا جو آج تک جاری ہے ‘‘۔
اپنے شمالی ہمسائے چین کی طرح ویتنام نے معیشت کو آزاد کر دیا اور غیر ملکی سرمایے کو متوجہ کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ اس کے ساتھ ہی اس نے ایک پارٹی کی حکومت کا نظام برقرار رکھا یعنی اقتصادی اصلاحات کے ساتھ سیاسی اصلاحات نہیں کی گئیں۔ہو سکتا ہے کہ چین میں جو تبدیلیاں آئیں ان کا اثر ویتنام نے قبول کیا ہو۔لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کی وجہ سے ویتنام میں یہ جذبہ پیدا ہوا کہ ایشیا کے باقی ملکوں اور امریکہ کےساتھ تعلقات قائم کیے جائیں۔
واشنگٹن میں سینٹر فار انٹرنیشنل اینڈ اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے ایرنیسٹ بوور کہتے ہیں کہ چین کے بارے میں ویتنام کو جو اندیشے تھے ان کی وجہ سے ویتنام نے ایسوسی ایشن آف ساوتھ ایسٹ ایشین نیشنز یا آسیان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ ان کےمطابق ’’ویتنام آسیان میں اس لیے شامل ہوا کیوں کہ اس کا خیال تھا کہ آسیان کا گروپ متحد ہو کر چین کے دباؤ اور اس کے اپنی بات منوانے کے رجحان کی مخالفت کر سکتا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ ویتنام آسیان کا بہت سرگرم رکن ثابت ہوا ہے اتنا زیادہ کہ آسیان کے پرانے ارکان کوبھی حیرت ہوئی ہے‘‘ ۔
جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے فریڈرک براون کہتے ہیں کہ امریکہ اور ویتنام کے تعلقات میں تجارت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر ویتنام کے لیڈروں کو تشویش رہی ہے اور ویتنام اپنے تعلقات میں چین اور امریکہ کے درمیان بڑا نازک سا توازن برقرار رکھنے کی کوشش کر تا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ’’ویتنام کے لیے بہت سی دشواریاں ہیں۔ اس کے بہت سے سیاسی کارکنوں کو امریکہ کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات پر سخت تشویش ہے ۔ پرانی کہاوت ہے کہ اگر آپ چین کے بہت قریب آجاتے ہیں تو ملک ہاتھ سے جاتا رہے گا اور آپ امریکہ کے بہت قریب آئے تو پھر آپ کمیونسٹ پارٹی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے‘‘۔
لیکن امریکہ کے ساتھ زیادہ قریبی تعلقات کی راہ میں، خاص طور سے اس کی اس خواہش کی راہ میں کہ اس کے ساتھ تجارت میں اور دوسرے اقتصادی امور میں خصوصی سلوک کیا جائے، انسانی حقوق کے مسائل حائل ہیں۔
ویتنام کی غیر ملکی سرمایے کو ملک میں لانے کی کوششوں میں ملک میں بیوکریسی کی طرف سے حائل کی ہوئی رکاوٹوں اور کرپشن کا بھی دخل ہے ۔تجزیہ کار ایرنیسٹ بوور کہتے ہیں کہ کرپشن کی انتہائی خراب صورتوں کو ختم کر دیا گیا ہے لیکن مسئلہ ابھی باقی ہے ۔ان کےمطابق’’بڑی بڑی بدعنوانیوں کو بڑی حد تک ختم کر دیا گیا ہے کیوں کہ کمیونسٹ پارٹی سمجھتی ہے کہ اگر کرپشن بہت بڑے پیمانے پر باقی رہا تو خود پارٹی کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔لیکن دفتروں میں ریڈ ٹیپ اب بھی سنگین مسئلہ ہے ۔آپ کو بہت سے مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے ۔ویتنام میں کوئی کاروبار کرنا اب بھی خاصا مشکل کام ہے اور چھوٹے چھوٹے کاموں میں قدم قدم پر رشوتیں دینی پڑتی ہیں اور یہ سنگین مسئلہ ہے‘‘۔
ویتنام کی حکومت نے حال ہی میں کرپشن کے مکمل خاتمے کے لیے ایک پروگرام شروع کیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت، جسے پروجیکٹ 30کا نام دیا گیا ہے، وزیروں کو یہ کام دیا گیا ہے کہ وہ انتظامی طریقۂ کار کو سادہ اور شفاف بنائیں۔