بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کے خلانورد، جو ایک سال کے مشن پر خلا میں مخلتف نوعیت کے تجربات کر رہے ہیں، کہا ہے کہ خلائی اسٹیشن کی کھڑکی سے اُنھیں نیچے کرہٴ ارض کا نظارہ ’انتہائی خوبصورت‘ نظر آتا ہے۔
بقول اُن کے، ’ہمیں مستقل یہ احساس رہتا ہے کہ یہ جنتِ ارضی حسین، جمیل و نازک ہے، جس کی حفاظت ہم سب کا مشترکہ فرض ہے، جس پر انسانی وجود کا دارومدار ہے‘۔
بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر موجود دو خلانوردوں کی جوڑی، امریکی ’ایکسپیڈیشن 46‘ کے کمانڈر، اسکاٹ کیلی اور روسی فلائیٹ انجینئر میخائل کورنئیکو نے یہ بات بدھ کے روز ’وائس آف امریکہ‘ کی ائینی بال سے خلا سے براہِ راست انٹرویو میں بتائی۔
ایک خلانورد کا کہنا تھا کہ اگر ’دونوں صدور کو یہاں خلا میں بھیجا جائے، تو تمام مسائل دور ہوجائیں گے‘۔
خلانوردوں نے کہا کہ’یہاں خلا سے ہم زمین کا نظارہ کرتے رہتے ہیں، تو فرحت کا سا احساس ہوتا ہے۔ زمیں ہمیں بہت ہی حسین و جمیل لگتی ہے‘۔
اس سوال پر کہ آپ کا مشن کیسا جا رہا ہے، اسکاٹ کا جواب تھا: ’بہترین‘۔
دونوں خلانواز پچھلے سال مارچ میں خلائی اسٹیشن پر روانہ ہوئے تھے، اور سال بھر کی مہم جوئی، جس دوران اُنھوں نے وسیع تر تجربات کیے، وہ اس سال مارچ میں زمین پر واپس لوٹیں گے۔
اُنھوں نے بتایا کہ جو خاص تجربہ وہ کر رہے ہیں وہ ہے ’طویل عرصے تک خلا میں رہنے سے انسانی جسم، بینائی، دل و دماغ، نفسیات پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں‘۔
اسکاٹ پچھلی بار چھ ماہ کے لیے خلا میں رہ چکے ہیں، جب کہ روسی خلانورد، سویوز مشن کے دوران 11 ماہ تک خلا میں رہ کر تجربات کر چکے ہیں۔
کمانڈر اسکاٹ کیلی نے، ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ ’کیے گئے تجربات کا یہ فائدہ ہوگا کہ جب انسانی مشن مریخ روانہ ہوگا تو اُس کے لیے آسانی پیدا ہوگی‘۔
تفصیلی انٹرویو دیکھیے: