|
دنیا کا سب سے بڑا آئس برگ، جو برف کی ایک دیوار جیسا ہے اور جس کا رقبہ امریکی ریاست روڈ آئی لینڈ کے مساوی ہے، سست رفتاری سے تیرتا ہوا انٹارکٹکا کے اس دور افتادہ جزیرے کی طرف بڑھ رہا ہے جو لاکھوں پینگوئنوں اور سیل کا گھر ہے۔
آئس برگ برف کے ایسے دیوقامت ٹکڑوں کو کہا جاتا ہے، جو گلیشیئروں سے ٹوٹ کر سمندر میں تیرنے لگتے ہیں۔ قطبی علاقوں کے قریب جہاں موسم انتہائی سرد رہتا ہے، چھوٹے بڑے آئس برگ تیرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
آئس برگ کا جتنا حصہ پانی کی سطح پر نظر آتا ہے، اس سے کم وبیش دس گنا زیادہ حصہ پانی کے نیچے ہوتا ہے جو حادثات کا باعث بن سکتا ہے۔ سن 1912 میں دنیا کا پہلا عظیم بحری جہاز ٹائٹینک بھی، ساؤتھ ہیمپشر سے نیویارک کے اپنے اولین سفر میں ایک آئس برگ سے ٹکرانے کے بعد غرق ہو گیا تھا جس سے لگ بھگ 1500 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
دنیا کے اس سب سے بڑے آئس برگ کا نام اے23 اے(A23a) ہے جس کا رقبہ تقریباً 4000 مربع کلومیٹر ہے۔
برف کی یہ تیرتی ہوئی عظیم چٹان قفقاز کےجسے کوہ قاف بھی کہا جاتا ہے، علاقے میں واقع ایک ملک جارجیا کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس کی رفتار تقریباً ایک میل فی گھنٹہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آئس برگ کا رخ اس علاقے کی جانب ہے جہاں لاکھوں پینگوئن اور سیل پائے جاتے ہیں۔ سیل ایک سمندری جانور ہے جسے دریائی بچھڑا بھی کہا جاتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ وہ علاقہ ہے جہاں پینگوئن اپنی افزائش نسل اور بچوں کی پروش کے لیے آتے ہیں۔ آئس برگ کے وہاں ٹکرانے سے سب سے بڑا نقصان یہ ہو گا کہ پینگوئنوں کی خوراک تک رسائی محدود ہو جائے گی، اور خوراک کی قلت سے ان کی بچوں کی پرورش متاثر ہو گی اور بہت بڑی تعداد میں ان کی ہلاکتوں کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔
اینڈریو میئر ایک برطانوی سائنس دان ہیں اور انٹارکٹکا کے علاقوں پر نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے دسمبر 2023 میں اس عظیم آئس برگ تک کا سفر اور تحقیق کی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ آئس برگ کا ایک مقام سے دوسری جگہ پر جانا ایک قدرتی عمل ہے، لیکن حالیہ برسوں میں کرہ ارض کا درجہ حرارت مسلسل بڑھنے کے باعث ایسے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آئندہ دو سے چار ہفتوں کے دوران آئس برگ جنوبی جارجیا کے ساحل تک پہنچ جائے گا جہاں پانی کم گہرا ہے۔ گہرائی میں کمی کی وجہ سے آئس برگ وہاں پھنس سکتا ہے، یا پھر واپس لوٹ سکتا ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں پینگوئن اپنے بچوں کے لیے خوراک اکھٹی کرتے ہیں۔ آئس برگ کے پھنسنے سے خوراک تک پینگوئنوں کا راستہ بند ہو جائے گا۔اور ان کے بچوں کے لیے مسائل اور خطرات پیدا ہو جائیں گے۔
کولوراڈو یونیورسٹی میں برف کے ایک سائنس دان ٹیڈ سکمباس کہتے ہیں کہ اس علاقے میں ہر سال چھوٹے بڑے آئس برگ سفر کرتے ہیں۔ یہ علاقہ ایک طرح سے ان کے لیے شاہراہ کا درجہ رکھتا ہے۔
دنیا کے سب سے بڑے آئس برگ اے 23 اے کا ذکر کرتے ہوئے سائنس دان میئر نے کہا کہ پینگوئنوں کے محفوظ ٹھکانوں کے قریب پہنچ کر اگر وہ رک جاتا ہے تو پھر انجام کار آہستہ آہستہ ٹوٹ پھوٹ کر بکھر جائے گا۔ زیادہ تر آئس برگ اسی عمل سے گزرتے ہیں اور سمندر میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔ اس سے ماہی گیروں کے لیے تو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا لیکن پینگوئنوں کے لیے مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں، جو وہاں اپنے بچوں کی پیدائش اور پرورش کے لیے آئے ہوئے ہیں۔
میئر نے بتایا کہ قطب جنوبی کے سمندری علاقے میں آئس برگ کے واقعات بڑے عام ہیں۔ سینکڑوں ہزاروں برسوں سے آئس برگ بن رہے ہیں، تیر رہے ہیں اور ٹوٹ پھوٹ کر بکھر رہے ہیں۔ لیکن اب وہ زیادہ تعداد میں دکھائی دینے لگے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا کا سب سے بڑا یہ آئس برگ 1986 میں گلیشیئر سے الگ ہوا تھا، لیکن اس کے گرد برفانی چٹانیں تھیں جس میں یہ کئی عشروں تک پھنسا رہا۔چٹانیں پگھلنے کے بعد اسے سمندر میں تیرنے کا موقع ملا ہے اور اب یہ پینگوئنوں اور سیل کی قدیم پناہ گاہوں کی طرف بڑھ رہا ہے۔
(اس رپورٹ کی کچھ معلومات اے پی سے لی گئیں ہیں)
فورم