واشنگٹن ڈی سی --- دنیا بھر میں زیادہ ترلوگ واشنگٹن ڈی سی کو دارالحکومت ہونے کہ وجہ سےامریکی طاقت کا سر چشمہ سمجھتے ہیں۔ آئےروز دنیا بھر سےعام لوگوں اور سیاحوں کے ساتھ ساتھ انتہائی اہم لوگ اس شہر کا رخ کرتے ہیں۔ سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ متواترکوئی نہ کوئی ثقافتی، سماجی ، معاشی اور تاریخی سرگرمیاں اس شہر کا معمول ہے۔کیپیٹل ہل ، نیشنل مال اور اس کے گرد تاریخی یادگاروں اور عجائب گھروں کے قریب سیاحوں کی قطاریں روزانہ کا معمول ہیں۔ کبھی شہر کے ایک حصے میں کسی ایک روڈ کا بند ہونایا کسی دوسرے حصے میں کسی اہم شخصیت کا گاڑیوں کے قافلے میں گزرنابھی عام سی بات ہے۔
ہر چار سال بعد امریکی صدر کی حلف برداری ہر لحاظ سے ایک بڑاواقع ہوتا ہے۔ساڑھے چھ لاکھ سے زائدباسیوں کے شہر میں مزید لاکھوں افراد امڈ آتے ہیں۔اس تاریخ ساز تقریب کے لئے سکیورٹی کےفول پروف انتظامات کئے جاتے ہیں ۔
تقریب سےچندروزپہلےکیپیٹل ہل اور نیشنل مالکے گرد سکیورٹی ذون قائم کر دیا جاتا ہےاورپھر ایک روز پہلےکئی میل طویل آہنی جنگلوں کا حصار اوررکاوٹیں کھڑی کردی جاتی ہیں۔ لاکھوںافراد کےعارضی بیت الخلا لا کر رکھے جاتے ہیں۔
اس مرتبہ نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب کے اگلے ہی روز خواتین کے حقوق کی تنظیموں کی جانب سےاحتجاجی مارچ بھی ایک بڑاواقع تھا۔
ذرائع ابلاغ میں شائع اندازوں سے پتہ چلتا ہےکہ ان دو روز کے دوران تقریباًدس لاکھ افراد نے حلف برداری کی تقریب اور احتجاجی ریلی میں شرکت کی۔ ان دو روز میں مجھے ان دونوں موقعوں پرموجود ہونے کاتجربہ ہوا ۔ کچھ لوگوں سے بات کرنے سے معلوم ہواکہ شہر میں ہوٹلوں میں جگہ نہ ہونے کے وجہ سے بیشتر لوگ اپنے عزیز و اقارب اور دوستوں کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔جمعے کو بارش اور ہفتےکوہلکی سردی کے باوجود لوگ خوشگوار موڈ میں تھے۔میں نےدوسرے شہروں سےآنے والے لوگوں کو میٹرو میں گانے گاتے سنا۔لوگ ایک دوسرے سے خوش اخلاقی سے پیش آتےاور دوسرے لوگوں کی مدد کے لئے تیار نظر آئے ۔
حلف برداری کے موقع پرکچھ احتجاجیوں نے ہنگامہ کیاجس کی وجہ سے پولیس نے دو سو سے زائد افراد کو گرفتار کیا ۔ مگر اگلے روز خواتین کے مارچ کے موقع پر کوئی حادثہ یا ناخوشگوار واقع پیش نہیں آیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق تقریباً پانچ لاکھ افراد جن میں ہر عمر کےلوگ شامل تھےاس مارچ میں شریک تھے۔
پیرکے روز گاڑی پر دفتر آتے ہوئےمیں شہر سے گزرا توایسے لگاکہ جیسے یہاں کچھ ہو اہی نہیں۔لوہےکے جنگلےاور رکاوٹیں غائب تھے۔ سبز اور نیلے رنگوں کےسینکڑوں عارضی بیت الخلاکی قطاریں کہیں نظرنہیں آرہی تھیں۔ کہیں کہیں گلیوں میں احتجاجیوں کے لائے ہوئےپلے کارڈزپڑےدکھائی دئیےمگر ا یک معقول حد تک شہر صاف تھا اورزیادہ تر کچرااٹھا لیا گیا تھا۔
واشنگٹن ڈی سی کے باسی یا میری طرح اس کے مضافات سےآ کر شہر میں کام کرنےوالےاکثراوقات یہاں پر پارکنگ کے مسائل یا میٹروکے مسائل اور آئے دن اس کےکچھ حصوں کی بندش سےمایوس رہتے ہیں ۔ مگر ایسے موقعوں پرشدت سےاحساس ہو تا ہےکہ واشنگٹن ڈی سی کتنافراخد ل شہر ہے۔ اس میں لاکھوں افرادکی میزبانی کرنے، سنبھالنے اور انہیں ایک جگہ سےدوسری جگہ لے جانےکی صلاحیت موجود ہے۔اور سب سے بڑھ کر یہکہ اس میں یہ صلاحیت بھی ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو موقع فراہم کرےکہ وہ بغیر کسی خوف اپناجمہوری حق استعمال کرتے ہوئے یہاں بحفاظت احتجاج کر سکیں ۔ یہ وہ اعزازہے جو شاید دنیاکے بہت کم شہروں کو حاصل ہے