رسائی کے لنکس

پریس فریڈم ایوارڈ پانے والوں میں روسی جیل کاٹنے والی وی او اے کی کرماشیوا بھی شامل


وی او اے کی جرنلسٹ السو کرماشیوا نے پریس فریڈم ایوارڈ حاصل کیا ہے۔ روسی نژاد امریکی صحافی روس میں صحافتی خدمات سرانجام دیتی رہی ہیں۔ انہیں سچ لکھنے پر روس میں جیل کاٹنی پڑی اور واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان قیدیوں کے تبادلے میں رہا ہوئیں۔ 21 نومبر 2024
وی او اے کی جرنلسٹ السو کرماشیوا نے پریس فریڈم ایوارڈ حاصل کیا ہے۔ روسی نژاد امریکی صحافی روس میں صحافتی خدمات سرانجام دیتی رہی ہیں۔ انہیں سچ لکھنے پر روس میں جیل کاٹنی پڑی اور واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان قیدیوں کے تبادلے میں رہا ہوئیں۔ 21 نومبر 2024
  • صحافیوں کے تحفظ کی کمپنی ہر سال دنیا بھر میں مشکل صورت حال میں سچ سامنے لانے والے صحافیوں کو ایوارڈ سے نوازتی ہے۔
  • نیویارک میں ہونے والی ایوارڈز کی تقریب میں وائس آف امریکہ کی ایک خاتون صحافی السو کرما شیوا نے بھی ایوارڈ حاصل کیا۔
  • کرماشیوا کا تعلق وی او اے کی ذیلی تنظیم ریڈیو فری یورپ۔ریڈیو لبرٹی سے ہے۔ وہ روس میں اپنے صحافتی فرائض سرانجام دے رہی تھیں۔
  • کرماشیوا کو سچ سامنے لانے پر جیل کی سزا ہوئی اور انہیں واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان قیدیوں کے تبادلے میں رہائی ملی۔
  • تین صحافیوں میں گوئٹے مالا کے کوئمی ڈی لیون، نائجر کی سمیرا صابو اور غزہ کی شروق العائلہ ہیں۔
  • شروق العائلہ جنگ کی صورت حال کی وجہ سے ایوارڈ کی تقریب میں شریک نہیں ہو سکیں۔

صحافیوں کے تحفط کی کمیٹی سی پی جے (CPJ) نے جمعرات کو نیویارک میں پریس فریڈم ایوارڈ کی پر وقار تقریب میں دنیا بھر کے ان صحافیوں کو اعزاز سے نوازا جنہوں نے انتہائی خطرات مول لے کر سچ کو دنیا تک پہنچایا۔ ان میں وائس آف امریکہ کی ایک صحافی السو کرماشیوا بھی شامل ہیں، جنہیں روس میں اپنی صحافتی خدمات کی انجام دہی پر جیل بھیج دیا گیا تھا۔

ایوارڈ وصول کرنے سے کچھ دیر قبل وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کرماشیوا نے کہا کہ یہ میرے لیے ایک بہت جذباتی لمحہ ہے اور یہ ایوارڈ میرے لیے بہت کچھ ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ صحافت کوئی جرم نہیں ہے۔ ان تمام صحافیوں کو، جو آج جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں، انہیں فوراً رہا کیا جانا چاہیے۔

کرما شیوا روسی نژاد امریکی ہیں اور وائس آف امریکہ کے ذیلی ایک ادارے ریڈیو فری یورپ۔ریڈیو لبرٹی کے لیے کام کرتی ہیں۔انہیں گزشتہ سال روس نے جھوٹے الزامات پر جیل بھیج دیا تھا جہاں انہوں نے نو ماہ قید کاٹی اور انہیں اس سال اگست میں امریکہ کے وال سٹریٹ جرنل کے رپورٹر ایون گرشکووچ اور دیگر سیاسی قیدیوں کے ہمراہ، واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان قیدیوں کے تبادلے میں رہائی ملی تھی۔

ایوارڈ وصول کرنے کی تقریب میں انہوں نے کہا کہ چراغ راہ بننا ایک قابل فخر ذمہ داری کا کام ہے اور میری کہانی اس ذمہ داری کی قیمت کی ایک مثال ہے جو سچ بتانے کے لیے ادا کی جا سکتی ہے۔

کرماشیوا ان چار صحافیوں میں شامل ہیں جنہیں سی پی جے نے اپنے سالانہ انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈز سے نوازا ہے۔ دیگر تین صحافیوں میں گوئٹے مالا کے کوئمی ڈی لیون، نائجر کی سمیرا صابو اور غزہ کی شروق العائلہ ہیں۔

سی پی جے کی سی ای او جوڈی گنزبرگ نے اپنی تقریر میں کہا کہ ایواڈ جیتے والے صحافی دنیا کے مختلف حصوں سے آتے ہیں لیکن ایک چیز جو انہیں ایک ڈوری سے باندھتی ہے ، وہ ہے صحافت کو ایک جرم بنانے والی کوششوں کا مقابلہ کرنا۔

سی پی جے کی سی ای او، جوڈی گنزبرگ۔ فائل فوٹو
سی پی جے کی سی ای او، جوڈی گنزبرگ۔ فائل فوٹو

انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم جس چیز کو دنیا بھر میں تیزی سے بڑھتا ہوا دیکھ رہے ہیں، وہ ہے طاقت کے سامنے صحافیوں کو سچ بولنے پر سزا دینے کے لیے قوانین کا غلط استعمال۔

کرما شیوا نے ایوارڈ کی تقریب میں اپنی تقریر میں اپنے ادارے آر ایف ای۔ آر ایل کے ان ساتھیوں کا ذکر کیا جو ابھی تک جیلوں میں بند ہیں اور ان پر عائد الزامات ایسے ہیں جو بڑے پیمانے پر انتقامی نوعیت کے ہیں۔

کرما شیوا نے بتایا کہ آر ایف ای۔ آر ایل کے ایہارلوسک اور آندرے کوزنچک بیلا روس میں، ولادی سلاوی سیپنکو روس کے زیر قبضہ کریمیا میں اور فرید مہرال زادہ آذربائیجان کی جیلوں میں ہیں اور آر ایف ای۔ آر ایل ان پر لگائے گئے الزامات کو جھوٹ قرار دیتا ہے۔

کرماشیوا کا کہنا تھا کہ میرے یہ ساتھی صرف ہندسے نہیں ہیں، وہ بھی میرے جیسے ہیں، ان کے بھی خاندان ہیں جو انہیں یاد کرتے ہیں اور ان سے پیار کرتے ہیں۔

پریس فریڈم ایوارڈ حاصل کرنے والی نائجر کی جرنلسٹ سیمرا صابو۔ فائل فوٹو
پریس فریڈم ایوارڈ حاصل کرنے والی نائجر کی جرنلسٹ سیمرا صابو۔ فائل فوٹو

سیمرا صابو ایک انویسٹی گیٹو جرنلسٹ ہیں جو نائجر میں گورننس کے مسائل پر لکھتی ہیں۔ انہیں کئی برسوں سے حکام کی جانب سے ہراساں کیا جا رہا ہے اور وہ کئی بار جیل جا چکی ہیں۔

ڈی لیون کو اپنی رپورٹنگ پر قانونی خطرات اور ہراساں کرنے کی دیگر اقسام کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے، جو گوئٹے مالا میں ماحولیاتی مسائل اور انسانی حقوق پر مرکوز ہے۔

گوئٹے مالا کی ڈی لیون ماحولیاتی مسائل اور انسانی حقوق پر رپورٹنگ کرتی ہیں اور انہیں متعدد بار اپنی رپورٹنگ کی وجہ سے قانونی خطرات اور ہراساں کیے جانے کے واقعات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

پریس فریڈم ایوارڈ جیتنے والی گوئٹے مالا کی جرنلسٹ کوئمی ڈی لیون۔ فائل فوٹو
پریس فریڈم ایوارڈ جیتنے والی گوئٹے مالا کی جرنلسٹ کوئمی ڈی لیون۔ فائل فوٹو

انہوں نے ایوارڈ کی تقریب میں کہا کہ ہم حقیقت سے جنم لینے والی کہانیاں سامنے لاتے ہیں اور سچ کی تلاش میں خطرات مول لیتے ہیں۔

فلسطینی صحافی شروق العائلہ اس تقریب میں شریک نہیں ہو سکیں کیونکہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کی وجہ سے ان کے لیے غزہ سے نکلنا ممکن نہیں تھا۔

العائلہ ایک آزاد میڈیا کمپنی عین میڈیا کی نگران ہیں۔ انہوں نے اس کمپنی کا انتظام اپنے شوہر رشدی سراج کی جنگ کے دوران ہلاکت کے بعد سنبھالا ہے۔ سراج عین میڈیا کے شریک بانی تھے۔

۔پریس فریڈم ایوارڈ حاصل کرنے والی غزہ کی جرنلسٹ شروق العائلہ۔ فائل فوٹو
۔پریس فریڈم ایوارڈ حاصل کرنے والی غزہ کی جرنلسٹ شروق العائلہ۔ فائل فوٹو

جمعرات کی اس تقریب میں سی پی جے نے رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے سابق سربراہ آنجہانی کرسٹوف ڈیلوار کو بھی آزادی صحافت کے لیے ان کی خدمات پر ایوارڈ دیا جن کا جون میں انتقال ہو گیا تھا۔ ڈیلوار کا ایوارڈ ان کی اہلیہ پیرین ڈوباس نے وصول کیا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ یہ ایوراڈ اس کمرے اور پوری دنیا میں موجود ہر ایک کے لیے ہے جو اس وراثت کو آگے بڑھاتا ہے کیونکہ یہ لڑائی اب پہلے سے کہیں زیادہ ہماری ہے۔

سی پی جے کے اعداد و شمار کے مطابق، غزہ کی جنگ صحافیوں کے لیے اب تک کی سب سے زیادہ ہلاکت خیز لڑائی بن گئی ہے۔ جمعرات تک اس لڑائی میں کم از کم 137 صحافی اور میڈیا کارکن مارے جا چکے تھے، جن میں 129 فلسطینی، دو اسرائیلی اور چھ لبنانی ہیں۔

وی او اے نیوز

فورم

XS
SM
MD
LG